Pakistan

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

بھارتی معیشت پر خطرات کے گہرے بادل

بھارتی معیشت اب خطرے سے دوچار ہو رہی ہے۔ اس سے بڑی تباہی اور کیا ہو گی کہ ہندوستان کی معیشت کو پوری دنیا میں سب سے بڑی گراوٹ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ کورونا کی وبا نے دنیا بھر کے ممالک حتیٰ کہ سپر پاور کو بھی پریشان کر کے رکھ دیا ہے لیکن ان کی مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) میں 10-15 فیصد سے زیادہ گراوٹ نہیں آئی ہے۔ برطانیہ میں گراوٹ 20 فیصد ہے لیکن بھارت نے برطانیہ کو بھی بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اپریل تا جون کی سہ ماہی میں ہماری گراوٹ 23.9 فیصد رہی۔ یہ اعداد و شمار National Statistical Institute نے کافی تحقیق کے بعد جاری کئے ہیں‘ لیکن جو کروڑوں لوگوں کے چھوٹے چھوٹے کام دھندے بند ہو چکے ہیں، اور تقریباً 10 کروڑ افراد گھر بیٹھے ہوئے ہیں، اگر ان سب کو شامل کر لیا جائے تو اس انسٹی ٹیوٹ کا ڈیٹا اور بھی خوفناک ہو سکتا ہے۔ یہ بھارتی معیشت میں گراوٹ کا ابھی آغاز ہے۔ آگے آگے دیکھئے کیا ہوتا ہے؟

یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہماری معیشت دوسرے ممالک کے مقابلے میں تیز رفتاری سے چل پڑے اور کچھ ہی مہینوں میں معیشت دوبارہ پٹڑی پر آ جائے۔ ایسی گراوٹ واقع ہوئی ہے کہ پچھلے 40 سالوں میں کبھی نہیں ہوئی۔ معیشت پر خطرات کے امنڈتے بادلوں کے باوجود یہ خوشی کی بات ہے کہ اس عرصے میں کاشت کاری میں 3.4 فیصد اضافہ ہوا ہے یعنی ہندوستان کو اپنی بھوک مٹانے کیلئے کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہیں ہو گی‘ لیکن عوام میں پیسے کی قلت اس حد تک ہو گئی کہ اس کی خریداری54.3 فیصد گر گئی ہے یعنی لوگ آدھی ادھوری اور روکھی سوکھی سے کام چلا رہے ہیں۔ مارکیٹیں کھل گئی ہیں لیکن صارفین کہاں ہیں؟ کورونا کیسز بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ اب یہ دیہات میں بھی پھیل رہا ہے۔ لوگ خوف کے سبب گھروں میں پھنس گئے ہیں۔ بڑی بڑی فیکٹریاں ایک بار پھر کھل رہی ہیں، لیکن ان کا تیار کردہ سامان کون خریدے گا؟ ریاستی حکومتیں اپنی جی ایس ٹی کی رقم کے لئے چیخ رہی ہیں۔ مرکزی حکومت نے ملک کے غریبوں اور کمزوروں کو کچھ راحت دی ہے، لیکن یہ اونٹ کے منہ میں زیرے کی طرح ہے۔ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ کچھ پیسہ لوگوں کے ہاتھوں تک پہنچے تاکہ ملک میں خریداری بڑھ جائے۔ یہ بحران کا ایک بہت ہی خطرناک وقت ہے۔ سرکار کو جو کرنا ہے وہ تو کرے گی ہی لیکن ملک میں 15 سے 20 کروڑ لوگ یقینا ایسے موجود ہیں جو اپنے کروڑوں ساتھی شہریوں کی مدد کر سکتے ہیں۔

پارلیمنٹ میں کوئی سوال و جواب کیوں نہیں؟
بھارتی پارلیمنٹ کا مون سون اجلاس 14 ستمبر سے شروع ہو گا‘ لیکن اسے لے کر ابھی سے تنازع کھڑا ہو گیا ہے۔ تنازع کا مرکزی موضوع یہ ہے کہ ایوان میں سوالیہ وقفہ نہیں رہے گا۔ اس کے حق میں حکمراں جماعت بی جے پی کی ایک دلیل یہ ہے کہ لوک سبھا اور راجیہ سبھا ہر دن صرف چار گھنٹے چلے گا۔ اگر سوال و جواب میں ایک گھنٹہ صرف ہوتا ہے تو قانون سازی کا کام نامکمل رہ جائے گا۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ جب وزرا ارکان پارلیمنٹ کو جواب دیتے ہیں تو ان کی وزارت کے بہت سے افسران کو وہاں حاضر ہونا پڑتا ہے۔ اس کورونا دور میں یہ جسمانی فاصلے کے قانون کی خلاف ورزی ہو گی۔ حکومت کے یہ دلائل بادی النظر میں درست لگے، لیکن پارلیمنٹ کی اہمیت عوام کے نمائندوں کے ذریعے، سرکاری ملازمین (وزرا) سے سوال کر کے لوگوں کے دکھ درد کی آواز حکومت تک پہنچانا اور حکومت کا کام ان کے حل کی تجویز تلاش کرنا ہے۔

اگر وزرا سوالوں کے جوابات مناسب طریقے سے تیار کریں تو افسران کو ساتھ لانے کی ضرورت نہیں ہو گی۔ سوال و جواب کے التوا کا خاتمہ جمہوریت کا قتل ہے، یہ الزام بہت ہی سنگین ہے۔ اس سیشن میں 'وقفہ صفر‘ کو برقرار رکھا گیا ہے، جس میں اچانک ہی کوئی سوال کیا جا سکتا ہے۔ سوال و جواب عام طور پر صبح 11 تا 12‘ اور وقفہ صفر 12 بجے سے شروع ہوتا ہے۔ اسے بھی کم کر کے آدھا گھنٹا کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح سوال و جواب کی مدت بھی آدھا گھنٹا کی جا سکتی ہے۔ اگر پارلیمنٹ کا عمل صرف 14-15 دن تک جاری رہنا ہے تو پھر اس کے اجلاس روزانہ 8-10 گھنٹے کیوں نہیں چلائے جا سکتے؟ اگر وہ ہفتہ اور اتوار کو چل سکتے ہیں تو پھر روزانہ 8-10 گھنٹے کیوں نہیں چل سکتے؟ اگر جگہ کم پڑ رہی ہے تو، دہلی میں وگیان بھون جیسی متعدد عمارتوں میں بھی ممبران پارلیمنٹ کے بیٹھنے کا انتظام کیا جا سکتا ہے۔ ہندوستانی پارلیمنٹ میں سوالیہ وقفہ گزشتہ 70 برسوں میں صرف چینی حملے کے دوران ملتوی کیا گیا تھا ابھی جنگ نہیں ہو رہی ہے۔ اس کورونا دور میں، سوال و جواب کا دورانیہ زیادہ اہم اور مفید ہو گا، کیونکہ تمام اراکین پارلیمنٹ اپنے اپنے علاقوں میں ہونے والی پریشانیوں سے حکومت کو آگاہ کریں گے تاکہ وہ اس وبا کا مقابلہ زیادہ مستعدی سے کر سکیں۔

ہرن پر گھاس کیوں لادیں؟
گزشتہ سال، آندھرا پردیش کی حکومت نے اپنے تمام سکولوں میں انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنانے کا فیصلہ کیا تھا اور اسمبلی نے 19 جنوری 2019 کو اس پر مہر تصدیق بھی لگا دی تھی۔ بی جے پی نے اس کی مخالفت کی اور اس کے دو رہنمائوں سودیش اور سرینواس نے ہائیکورٹ میں اس کے خلاف درخواست دی۔ ہائیکورٹ نے انگریزی نافذ کرنے کے اس فیصلے کو غیر قانونی قرار دے دیا، لیکن اب آندھرا حکومت اس معاملہ کو لے کر سپریم کورٹ پہنچ گئی ہے۔ سپریم کورٹ نے اس معاملے پر بحث کی اجازت دے دی ہے‘ لیکن ہائیکورٹ کے فیصلے کو روکنے کیلئے ریاستی حکومت کی درخواست کو مسترد کر دیا ہے‘ یعنی بچوں کو تلگو اور ہندی میڈیم کے ذریعہ آندھرا میں پڑھانا جاری رکھا جائے گا۔ آندھرا حکومت نے اس کے حق میں دلیل پیش کی کہ اگر ریاست کے بچے انگریزی سیکھ لیں گے تو انہیں اندرون اور بیرون ملک آسانی سے ملازمت مل جائے گی‘ اس نے یہ ترقی پسند قدم اپنے بچوں کے حق میں اٹھایا ہے۔ 

یہ دلیل بالکل درست ہے، کیونکہ آج بھی دنیا بھر میں انگریزی کی غلامی اسی طرح باقی ہے جیسے ہندوستان میں ہے۔ انگریزی میڈیم کو سرکاری ملازمتوں میں ترجیح ملتی ہے اور اہم سرکاری کام پوری طرح انگریزی میں ہوتا ہے۔ جس دن انگریزی پر سرکاری کام کیلئے روک لگ جائے گی، اس دن بھارت میں انگلش میڈیم سکول دیوالیہ ہو جائیں گے۔ انگریزی کے اس غیر ضروری غلبے کی وجہ سے ملک میں غیر سرکاری نجی سکولوں کا سیلاب آ گیا ہے۔ بھارت میں یہ انگریزی میڈیم سکول دھوکہ دہی اور منافقت کے اڈے بن چکے ہیں۔ اسے برقرار رکھنے کیلئے کچھ رہنمائوں نے اس کا یہ حل نکالا ہے کہ تمام بچوں کو انگریزی میڈیم پڑھنے پر مجبور کیا جانا چاہئے لیکن وہ کیوں نہیں سمجھتے کہ یہ قدم تعلیم کے معاملے میں تباہ کن ہے۔ یہ آسان نظر آنے والا راستہ، راستہ نہیں، ایک گہرا کھڈا ہے۔ ہمیں اپنے کروڑوں بچوں کو اس گڑھے میں گرنے سے بچانا ہے۔ دنیا کے کسی بھی امیر اور طاقتور ملک میں بچوں کو تعلیم غیر ملکی زبان کے ذریعے نہیں دی جاتی۔ ہمارے سکولوں میں بچوں کو لازمی انگریزی پڑھائی جاتی ہے، جس کی وجہ سے ناکام ہونے والوں کی تعداد تمام مضامین کے مقابلے میں انگریزی میں سب سے زیادہ ہے۔ غیرملکی زبانیں پڑھنے کیلئے اچھی سہولیات ضرور ہونی چاہئیں لیکن وہ دسویں جماعت کے بعد ہونی چاہئیں اور رضاکارانہ۔ علاقائی حکومتوں اور مرکزی حکومتوں کو فوری طور پر ایسا قانون وضع کرنا چاہئے کہ غیرملکی زبان کے ذریعے بچوں کی تعلیم پر مکمل پابندی ہو۔ اکبر الہ آبادی کے الفاظ میں، میں یہ کہوں گا ، 'ہرن پر کیوں لادیں گھاس‘۔

ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک

بشکریہ دنیا نیوز

Post a Comment

0 Comments