Pakistan

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

آذری فتح : عسکری طاقت کی حقیقت کا سبق

قارئینِ کرام! گزشتہ ’’آئینِ نو‘‘ بعنوان ’’آذری (آذربائیجانی) فتح، عسکری طاقت کی حقیقت کا سبق‘‘ میں واضح کیا گیا تھا کہ اقوامِ متحدہ کی مسئلہ کشمیر و فلسطین اور نگورنو قارہ باغ جیسے مقبوضہ متنازعہ علاقوں پر عالمی قرار دادوں کو اگرچہ سفارت کاری (ڈپلومیسی) کی بڑی کامیابی سمجھا جاتا رہا لیکن وقت نے ثابت کیا کہ دوسری جنگِ عظیم سے قبل کی طرح کامیاب ڈپلومیسی کے مقابل فتوحات اور خارجی امور کے (مقبوضہ علاقے خالی کرانے جیسے) اہداف کے حصول کا اصلی انسٹرومنٹ آج بھی ’’جنگ‘‘ ہی ہے۔ واضح کیا گیا کہ مذہبی متعصب ہمسائے سے اپنا مقبوضہ علاقہ خالی کرانے کے لئے سیکولر آذربائیجان کی فتح بشکل نگورنو قارہ باغ کی بازیابی نے اُس امر کی تصدیق کو پھر دہرا دیا کہ عالمی قراردادوں اور فیصلوں کے مقابل عملدرآمد میں رکاوٹ بننے والے غاصب فریق کے خلاف ڈپلومیسی کے ساتھ ساتھ ’’جنگ‘‘ کا انسٹرومنٹ ہی کارآمد ہے۔ فقط قرار دادیں اور عالمی اتفاق اور یو این چارٹر جیسی محترم و مقدس دستاویزات ایک سراب ہی ہے۔ 

یہ کمزور حق دار کا علاقہ، آزادی اور حقِ خود ارادیت جیسے تسلیم شدہ اور مسلمہ حقوق کی بازیابی میں اب تو حتمی طور پر بیکار و بےاثر ثابت ہو چکیں، تاہم ’’جنگ‘‘ کی تیاری یا صلاحیت بڑھانے کے لئے جاری سفارتی کاوشوں میں اُنہیں استعمال کرتے رہنا چاہئے تاکہ حق دار ملک کے سچا ہونے کی تصویر مدہم نہ ہونے پائے۔ قارئینِ کرام! ’’آئینِ نو‘‘ کی گزشتہ اشاعت میں واضح کیا گیا تھا کہ آذری فتح خاکسار کے متذکرہ تھیسیز ’’جنگ عظیم کے بعد بھی ڈپلومیسی اور عالمی فیصلوں کے مقابلے کمزور ممالک کے غصب کئے گئے مقبوضہ علاقوں کی بازیابی کے لئے ’’جنگ‘‘ ہی خارجہ پالیسی کا نتیجہ خیز انسٹرومنٹ ہے‘‘۔ اِس ضمن میں سیاسی، نظریاتی بنیاد پر متحدہ کوریا (منچوریا) کی تقسیم اور تقسیم ہوئے ویت نام کا بذریعہ گوریلا جنگ دوبارہ متحد ہونا کیس اسٹڈی کے طور پیش کئے گئے کہ کوریا کس طرح امریکہ کے مکمل امکانی دائرہ اثر میں جانے کیخلاف عسکری مزاحمت سے تقسیم ہو گیا اور اُسکا حصہ سفارتی ضرورت کے تحت بہت حد تک ہمسایہ چین کا مرہون منت بن کر اور روس سے بھی جغرافیائی طور پر قریب ہو کر امریکہ جیسی سپر طاقت اور اُس کے علاقائی حلیفوں کے لئے حقیقتاً مسلسل سلامتی کا خطرہ بنا ہوا ہے۔ 

دوسری جانب منقسم ویت نام کا شمالی حصہ جنوبی ویت نام میں امریکی افواج اور کٹھ پتلی حکومت کے خلاف گوریلا طرز کی جنگ کا ایسا کامیاب مزاحمتی بیس بنا ئے بغیر کسی واضح ڈپلومیسی کے فقط مخصوص جنگی مزاحمت سے ہی امریکی افواج کو ویت نام سے نکالنے اور دوبارہ متحد کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ افغانستان پر روسی افواج کی گیارہ سالہ جارحیت (دسمبر1979)، قبضہ اور اسکی Sovietization کے خلاف افغان عوام کا جہاد اور اس کی آزاد دنیا خصوصاً امریکی اینگلو بلاک کی طرف جھکائو رکھنے والے مسلم ممالک کی پشت پناہی نے حتمی تصدیق کی کہ بڑے سے بڑے قبضے بھی عالمی قراردادوں اور اعلیٰ اور کامیاب ترین ڈپلومیسی سے نہیں جنگ سے ہی حل ہوتے ہیں۔ آذربائیجانی فتح اگرچہ چھوٹا کیس ہے اور یہ انٹرنیشنل میڈیا میں محدود کوریج کا حامل ہی رہا لیکن خارجہ پالیسی کی سائنس کے اطلاق کے حوالے سے یہ ایک بڑی اسمارٹ وار گیم رہی جس میں آذری سرخرو ہوئے۔ 

اس نے فارن پالیسی کے انسٹرومنٹس میں شامل ’’جنگ‘‘ کی حقیقت پر تصدیق کی مہر ثبت کر دی۔ جبکہ افغانستان بھی نیٹو افواج کے خلاف طالبان اور کچھ اور محدود عسکری صلاحیت کے حامل گروپس کے اسی تجربے سے پھر گزر رہا ہے۔ خود امریکہ میں ان کی مزاحمت کی حقیقت کا اعتراف پیدا ہو چکا ہے۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ مسئلہ فلسطین کے حوالے سے پی ایل او کی نیم عسکری اور جارحانہ سفارتی مہمات نے مسئلے کو بڑے عالمی مسئلے کے طور پر زندہ رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔ تاہم 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل کی عربوں کے مقابل غالب عسکری صلاحیت اور طاقتور ممالک کی مکمل پشت پناہی کے بڑے غلبے نے فلسطینی نیم عسکری جدوجہد کو پہلے تو ماند کر دیا پھر خود بھی یاسر عرفات اس سے تائب ہو گئے۔ متبادل انتفادہ نے بھی مسئلے کو زندہ رکھنے میں تو کردار ادا کیا، لیکن یہ پُر امن تحریک بھی مسئلے کی طرف دنیا کو متوجہ کرنے کیلئے ہی موثر ہوئی۔

امر واقع یہ ہے کہ بڑے حلیف ہمسائے عرب بھائیوں نے اسرائیل کو اپنی عسکری طاقت مسلسل بڑھانے کے لئے کھلا چھوڑ دیا، نتیجہ بھرپور اور زور دار عالمی قراردادیں اور فیصلے بھی اسرائیل کی غالب عسکری صلاحیت اور طاقتور حلیفوں کی پشت پناہی نے نوبت یہاں تک پہنچا دی کہ ’’عالمی اتفاق رائے برائے عالمی امن‘‘ (اور فلسطینیوں کے حقوق کی بازیابی) کے مقابل اتنا ماننا پڑا کہ وائٹ ہائوس میں صدر ٹرمپ کے گھر داماد کی تیار کردہ ’’ڈیل آف سنچری‘‘ اتنا وزن پکڑ گئی کہ صدر صاحب کے وائٹ ہائوس میں اس کے اطلاق سے مقبوضہ علاقے بیت المقدس میں نیا اسرائیلی دارالحکومت بھی بن گیا اور فلسطینیوں کے ماضی کے سرگرم حلیف و مسلمان بھائی آج اسرائیل کو تسلیم کرنے کی دوسری قسط ادا کر رہے ہیں۔ یہ سارا پس منظر فلسطینیوں اور عربوں کے لئے بڑا درد ناک اور مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پاکستانیوں مقبوضہ کشمیر کے کشمیریوں، ہمارے بڑے حلیف چین، بنتے دوست روس اور مسلسل غیرملکی مداخلت ہی نہیں تقریباً قبضے میں آئے افغانستان کے افغانیوں کے لئے، اُن کی نجات، سلامتی و آزادی و استحکام کے لئے بڑے ہی کام کے اسباق لئے ہوئے ہے۔

ڈاکٹر مجاہد منصوری

بشکریہ روزنامہ جنگ

Post a Comment

0 Comments