Pakistan

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

کورونا وائرس انڈیا کی معیشت کو تباہ کر کے رکھ دے گا

محمد عالم انڈیا کے دارالحکومت دلی میں خوراک تقسیم کیے جانے کے لیے لگی کسی قطار میں کھڑے ہزاروں افراد میں سے ایک ہیں۔ جس فیکٹری میں وہ کام کرتے تھے، وزیراعظم مودی کی جانب سے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے 21 روزہ لاک ڈاؤن کے اعلان کے بعد وہ بند ہو گئی۔ بطور ایک دیہاڑی دار مزدور، ان کے پاس کوئی ذریعہِ آمدن نہیں ہے۔ اسی لیے وہ حکومت کی جانب سے قائم کردہ کھانے کے مرکز آنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ ‘مجھے نہیں پتا کہ میں زندہ کیسے رہوں گا۔ مجھے اپنی فیملی کا پیٹ پالنے کے لیے ادھار لینا پڑے گا۔‘
نیرج کمار اپنا گھر بار چھوڑ کر کام کرنے شہر آئے ہوئے تھے۔ لاک ڈاؤن کے پیشِ نظر انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ شہر سے چلے جائیں گے۔ 

شہروں سے پبلک ٹرانسپورٹ تو بند تھی اور پھر لوگوں کے پاس پیدل چلنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں تھا۔ جب ہماری نیرج سے بات ہوئی تو وہ، ان کی بیوی، اور دس سالہ بیٹی پہلے ہی 40 کلومیٹر چل چکے تھے۔ ’یہاں کوئی کام نہیں بچا۔ اسی لیے یہاں سے جا رہے ہیں۔ کوئی بسیں نہیں ہیں۔ مجھے ابھی 260 کلومیٹر اور چل کر اپنے گاؤں پہنچنا ہے۔‘ انڈیا نے محمد عالم اور نیرج کمار جیسے لوگوں کے لیے 23 ارب ڈالر کے امدادی پیکج کا اعلان کیا ہے۔ ایسے لوگ انڈیا کی غیر منظم غیر رسمی معیشت کا حصہ ہیں جہاں ملک کے 94 فیصد لوگ کام کرتے ہیں اور ملکی پیداوار میں ان کا 45 فیصد حصہ ہے۔

کسی کو بھی بھوکا نہیں جانے دیا جائے گا
ملکی معیشت پہلے ہی مشکلات میں ہے اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہزاروں لوگ ایک ہی دم بےروزگار ہو گئے ہیں۔ پیکج کا اعلان کرتے ہوئے ملک کی وزیرِ خزانہ نرملا ستھارمن نے کہا تھا کہ ’کسی کو بھی بھوکا نہیں جانے دیا جائے گا۔‘ اس پیکج میں براہِ راست کیش ٹرانسفرز اور خوراک کے تحفظ کے حوالے سے اقدامات شامل ہیں۔ مگر پھر بھی اس بےمثال لاک ڈاؤن کا معاشی بوجھ بہت زیادہ رہا۔ کاروبار بند ہو رہے ہیں، بےروزگاری بڑھ رہی ہے اور پیداوار گرتی جا رہی ہے۔ انڈیا میں پیداواری اینجن کورونا کی وبا پھیلنے سے پہلے ہی روک رہا تھا۔ ایک وقت میں دنیا کی تیز ترین بڑھتی ہوئی معیشتوں میں سے ایک، انڈیا کا گذشتہ سال بھی مجموعی پیداوار میں اضافے کا تناسب 4.7 فیصد تھا جو کہ گذشتہ چھ سالوں میں سب سے کم تھا۔

بےروزگاری پچھلے 45 سال کی اونچی ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ 8 مرکزی صنعتی سیکٹروں میں پیداوار 5.2 فیصد کم ہو گئی ہے جو کہ گذشتہ 14 سال میں بدترین پرفارمنس ہے۔ چھوٹے کاروبار تو ابھی 2016 کے متنازع کرنسی قانون کے جھٹکے سے واپس آ رہے تھے۔ اب ماہرین کا خیال ہے کہ کورونا وائرس انڈیا کی نازک معیشت کو تباہ کر کے رکھ دے گا۔ اگرچہ بہت سے لوگ حکومتی اقدامات کا خیر مقدم کر رہے ہیں، ان میں سے زیادہ تر کی رائے میں حکومت کو اور بہت کچھ کرنا چاہیے تاکہ معاشی نقصان کا بوجھ بٹ جائے۔ ماہرِ معاشیات ارن کمار کہتے ہیں ’اگرچہ مفت راشن کا اعلان کر دیا گیا ہے مگر پھر بھی غربا اور راشن تک رسائی کیسے حاصل کریں گے۔‘

’حکومت کو فوج اور ریاستی مشین کا استعمال کرتے ہوئے اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ غربا تک خوراک پہنچے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ جہاں ہزاروں دیہاڑی دار مزدور اپنے گھروں سے میلوں دور پھنسے ہوئے ہیں، پیسوں اور خوراک کو بہترین انداز میں بانٹنا حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ اور صرف اپنے گھروں سے دور پھنسے مزدور کی وہ لوگ نہیں جو کہ اس وقت خطرے میں ہیں۔
اس لاک ڈاؤن کی وجہ سے کسانوں کو بھی شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ زراعت کا شعبہ انڈیا کی معیشت میں 265 ارب ڈالر کی پیداوار کا حصہ دار ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اپریل میں کسانوں کو دو ہزار انڈین روپے (تقریباً 30 امریکی ڈالر) دے گی اور سال بھر میں 80 امریکی ڈالر دے گی تاکہ وہ صورتحال کا مقابلہ کر سکیں۔

ارن کمار کہتے ہیں کہ ’یہ پیسے ناکافی ہیں۔ برآمدات میں کمی کی وجہ سے شہروں میں قیمتیں بڑھ جائیں گی اور دیہاتوں میں گر جائیں گی کیونکہ کسان فصلیں بیچ نہیں سکیں گے۔‘ یہ وبا ایک اہم وقت پر پھیلی ہے۔ تازہ فصل بکنے کے لیے تیار کھڑی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران حکومت دیہاتوں سے شہروں تک فصلیں پہنچانے میں دشواریوں کا سامنا کرے گی۔ اگر سپلائی چین صحیح سے کام نہ کیں تو بہت خوراک ضائع ہو گی اور کسانوں کو بہت نقصان ہو گا۔ ادھر ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ انڈیا بے روزگاری کے ایک بڑے مسئلہ کے دہانے پر کھڑا ہے۔ مگر کہانی صرف یہ ہی نہیں ہے۔ فضائی پروازوں کی وجہ سے انڈیا کی ایئر لائن کی صنعت بھی مشکلات میں آ جائے گی۔   

سینٹر فار ایشیا پیسفک ایویایشن کا اندازہ ہے کہ انڈیا کی ہوابازی کی صنعت اس سال 4 ارب ڈالر کا نقصان اٹھائے گی۔ اور پھر اس سے جڑی ہوٹلنگ کی صنعت، سیاحت کی صنعت، ریستوران سبھی کو مشکلات ہوں گی۔ ملک بھر کے ہوٹل خالی پڑے ہیں اور کئی ماہ تک ایسے ہی رہیں گے جس کی وجہ سے لوگوں کی نوکریاں چھوٹنے کے خدشات سامنے آ رہے ہیں۔ کاروں کی صنعت میں 2 ارب ڈالر کا نقصان متوقع ہے۔ تو کیا اس سب میں انڈیا کا امدادی پیکج کافی ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ یہ ایک بالٹی میں ایک قطرے کے مترادف ہے۔

ارونادے مکھرجی
بشکریہ بی بی سی نیوز، دلی

Post a Comment

0 Comments