Pakistan

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

ایردوان ٹرمپ ملاقات

ترک صدر رجب طیب ایردوان اس وقت نیویارک میں ہیں جہاں وہ اقوام متحدہ کی 80ویں جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کیساتھ ساتھ اہم عالمی و علاقائی رہنماؤں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں ان کا فوکس محض ترکیہ کی خارجہ پالیسی یا خطے کے توازن تک محدود نہیں ہو گا بلکہ توقع کی جا رہی ہے کہ وہ عالمی امن، انسانی حقوق اور مظلوم اقوام کی حمایت جیسے بڑے موضوعات کو نہایت جرات مندی سے اجاگر کریں گے۔ خاص طور پر غزہ میں جاری انسانی المیے پر ان کی تقریر نہ صرف دنیا کو جھنجھوڑے گی بلکہ عالمی ضمیر کو بیدار کرنے کی ایک مضبوط کوشش بھی ہو گی۔ ترکیہ کے صدر بارہا یہ واضح کر چکے ہیں کہ اسرائیل کی جارحیت اور فلسطینی عوام پر ڈھائے جانیوالے مظالم انسانیت کیخلاف کھلی جنگ ہیں۔ ایسے میں اقوام متحدہ جیسے ادارے کی خاموشی قابلِ افسوس ہے۔ ایردوان اس مسئلے پر وہی آواز ہیں جو دوٹوک انداز میں دنیا کو یاد دلاتی ہے کہ دنیا پانچ سے عظیم تر ہے۔ ان کے خطاب میں مشرقِ وسطیٰ کے علاوہ یوریشیا، افریقہ، قارا باغ اور کشمیر جیسے خطے بھی نمایاں ذکر کا حصہ بن سکتے ہیں جہاں انسان بنیادی حقوق کیلئے ترس رہے ہیں۔

صدر ایردوان کی صدر ٹرمپ کیساتھ متوقع ملاقات نہ صرف ترکیہ بلکہ پورے خطے کیلئے غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے اور دنیا بھر کی نظریں 25 ستمبر کو وائٹ ہاؤس میں صدر ایردوان اور صدر ٹرمپ پر مرکوز ہو کر رہ گئی ہیں۔ یہ ملاقات محض ایک رسمی سفارتی ایونٹ نہیں بلکہ مشرقِ وسطیٰ، یوریشیا اور عالمی سیاست کیلئے ایک فیصلہ کن موڑ ثابت ہو سکتی ہے۔ اربوں ڈالر کے تجارتی و دفاعی معاہدوں کے ساتھ ساتھ فلسطین، شام اور غزہ جیسے سلگتے ہوئے مسائل بھی اس ایجنڈے کا حصہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی ذرائع ابلاغ اس ملاقات کو ’’تاریخی‘‘ قرار دے رہے ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ نے ملاقات سے قبل ایک بیان میں واضح الفاظ میں کہا کہ وہ صدر ایردوان کے ساتھ کئی تجارتی اور عسکری معاہدوں پر کام کر رہے ہیں۔ ان میں سب سے نمایاں 250 بوئنگ مسافر طیاروں کی بڑی خریداری، ایک جامع F-16 معاہدہ اور سب سے متنازع F-35 پروگرام سے متعلق جاری مذاکرات شامل ہیں۔ ترکیہ پہلے ہی F-35 پروگرام کیلئے تقریباً 1.4 ارب ڈالر ادا کر چکا ہے لیکن امریکہ نے ان طیاروں کی ترسیل روک رکھی ہے۔ 

صدر ایردوان نے نیٹو سربراہی اجلاس کے موقع پر کھل کر کہا تھا ہم نے ایف-35 کیلئے خطیر رقم دی ہے لیکن بدقسمتی سے یہ طیارے روک دیے گئے ہیں۔ صدر ٹرمپ اس مسئلے کے حل میں نیک نیتی رکھتے ہیں اور ہمیں امید ہے کہ جلد مثبت نتیجہ سامنے آئے گا۔ امریکی میڈیا کے مطابق ترکیہ اس وقت 40 ایف-35 لڑاکا طیارے، 40 ایف-16 وائپرز اور مختلف جدید میزائل و اسلحہ خریدنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ترکیہ نے ایئربس کو بھی 230 طیاروں کا بڑا آرڈر دیا تھا اور اب بوئنگ کے ساتھ تاریخ کے سب سے بڑے معاہدے کی دہلیز پر ہے تاہم F-35 طیاروں کو حاصل کرنے سے متعلق سب سے بڑی رکاوٹ امریکی کانگریس اور اس پر اثر انداز ہونے والی اسرائیلی و یونانی لابیاں ہیں۔ حال ہی میں کانگریس کے بعض ارکان نے 2026ء کے دفاعی بجٹ میں ایسی ترامیم تجویز کیں جن کا مقصد ترکیہ کو F-35 کی فروخت کو روکنا ہے۔ ان کا مؤقف یہ ہے کہ جب تک ترکیہ کے پاس روس کا خریدا ہوا S-400 فضائی دفاعی نظام موجود ہے، تب تک F-35 کی فراہمی ممکن نہیں۔

صدر ایردوان کی امریکی صدر سے ملاقات سے قبل امریکی کانگریس کے تحقیقی ادارے کانگریشنل ریسرچ سروس (CRS) نے ایک جامع رپورٹ جاری کی ہے جس میں ترکیہ کی اہمیت کو کھلے الفاظ میں تسلیم کیا گیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق ترکیہ نیٹو میں ایک ناقابلِ تنسیخ کردار ادا کر رہا ہے، روس - یوکرین جنگ میں ترکیہ کی ثالثی کو’’بے مثال‘‘قرار دیا گیا۔ یہ رپورٹ دراصل اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ ترکیہ کو باہر رکھ کر کوئی بھی علاقائی یا عالمی حل ممکن نہیں۔ صدر ایردوان نے صدر ٹرمپ سے ملاقات سے قبل اپنے بیان میں کہا کہ ہم اپنے خطے میں امن کے قیام اور کشیدگی کے خاتمے کیلئے بطور رہنما بڑی ذمہ داری محسوس کرتے ہیں۔ ہماری خواہش ہے کہ ہمارے خطے سے خون اور آنسو ہمیشہ کیلئے ختم ہو جائیں۔ صدر ایردوان نے واضح کیا کہ ہم ہمیشہ فلسطین کے ساتھ کھڑے رہے ہیں اور رہیں گے۔ بدقسمتی سے دنیا نے فلسطین کا ساتھ نہیں دیا، لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ اقوامِ متحدہ کے تقریباً 140 ممالک نے فلسطین کو تسلیم کر رکھا ہے اور اب برطانیہ، آسٹریلیا ، کنیڈا اور فرانس کی جانب سے فلسطین کو تسلیم کیے جانے کے بعد مزید ممالک کی جانب سے بھی جلد فلسطین کو تسلیم کیے جانے کی توقع کی جا رہی ہے۔

امریکہ اپنے اتحادی ترکیہ کے ساتھ تجارت کے فروغ کو بڑی اہمیت دے رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ترکیہ اور امریکہ کے درمیان 250 بوئنگ طیاروں کی خریداری محض ایک کاروباری سودا نہیں بلکہ یہ امریکی معیشت کیلئے بھی ایک بہت بڑا سہارا ثابت ہو گا ۔ اس سال بوئنگ کے حصص میں پہلے ہی 22 فیصد اضافہ ہو چکا ہے جبکہ دفاعی انڈیکس میں 35 فیصد تک نمو دیکھی گئی۔ ماہرین کے مطابق یہ ڈیل امریکہ کے تجارتی خسارے کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کریگی۔ یہ ملاقات نہ صرف ترکیہ اور امریکہ کے تعلقات میں نیا باب رقم کرے گی بلکہ ایردوان کو مسلم دنیا میں ایک فیصلہ کن رہنما کے طور پر اجاگر کرے گی اور خطے میں امن، استحکام اور طاقت کے نئے توازن کی بنیاد رکھے گی۔

ڈاکٹر فر قان حمید

بشکریہ روزنامہ جنگ

Post a Comment

0 Comments