اِدھر اُدھر جو قیامتیں گزر رہی ہیں۔ غالبؔ کی یاد آتی ہے: نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پاہے رکاب میں گھوڑے تو سرپٹ بھاگ رہے ہیں۔ مگر گھڑ سوار نہ لگام ہاتھ میں لے پارہے ہیں۔ نہ ہی پائوں ٹھیک سے رکاب میں رکھ رہے ہیں۔ گھوڑوں سے اتر بھی نہیں پاتے کیونکہ گھوڑے ریموٹ کنٹرول میں ہیں۔ 1992 میں بل کلنٹن کی انتخابی مہم کے ایک ماہر چالباز (Strategist) جیمز کارول نے حالات کے عین مطابق ایک جملہ کسا: "IT IS THE ECONOMY STUPID!" اور یہ جملہ کالموں، مضامین اور کتابوں کا سرنامہ بنا۔ انتخابی جلسوں میں نعرہ بن کر لگا۔ اب بھی چل رہا ہے۔ جیمز کارول کا یہ جملہ ان سارے ملکوں میں دہرایا جاتا ہے جہاں معیشت کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ ان سارے خراب معاشی موسموں میں از خود لبوں پر آجاتا ہے کہ جہاں حکومتیں اور ریاستیں معیشت پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے سیاسی چالبازیوں میں مصروف ہوتی ہیں، اپنے خاندانوں کو عدالتوں سے بری کروا رہی ہوتی ہیں، اپنے سیاسی مخالفین کو سیاسی، سماجی، مالی اور حتیٰ کہ جسمانی طور پر ختم کروانے میں لگی ہوتی ہیں، کوئی نہ کوئی درویش یہ پکار رہا ہوتا ہے ’’ اصل مسئلہ معیشت ہے۔ نادان‘‘ ۔ Stupid کا عام ترجمہ تو احمق ہوتا ہے۔
یہ کہاوت بھی ہے۔ آپ کن احمقوں کی جنّت میں رہ رہے ہیں۔ میں تو سادہ سے لفظوں میں بڑے احترام کے ساتھ یوں عرض گزار ہوں گا۔ ’اصل بیماری معیشت ہے قبلہ‘۔ کوئی جمہوریت، آمریت، پارلیمانی یا صدارتی حکومت اپنی معیشت مستحکم کئے بغیر نہیں چل سکتی۔ اینکر پرسن چیخ رہے ہیں۔ اقتصادی ماہرین گریہ کناں ہیں۔ اساتذہ توجہ دلا رہے ہیں۔ معیشت، معیشت اور اب تو معیشت کی بد حالی انسانی جانیں لینے لگی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے زیرنگیں صوبہ سندھ کے زرخیز ضلع میرپور خاص میں 37 سالہ ہرسنگھ کوہلی عرف گلاہی بھیل اپنی چھ بیٹیوں کا پیٹ بھرنے کے لئے دس کلو آٹے کے تھیلے کیلئے لمبی قطار میں لگا تھا کہ بھگدڑ مچ گئی اور ایک غریب ہاری، دوسرے غریبوں کے قدموں تلے کچلا گیا۔ نہ مدعی نہ شہادت حساب پاک ہوا یہ خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا میرپور خاص سے سندھ اسمبلی کے رکن سید ذوالفقار علی شاہ، ڈپٹی کمشنر کے ساتھ مرنے والے کے گھر گئے۔ لیکن گورنر، وزیر اعلیٰ اور کسی وزیر کو یہ توفیق نہ ہوئی۔
جس ریاست میں جیتے جاگتے لوگ سب سے زیادہ ضرورت کی چیز آٹے کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہوں۔ لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے ہوں۔ بیٹیاں انتظار کررہی ہوں کہ ابا آٹا لے آئے تب روٹی پکے گی۔ تب بھوک مٹے گی۔ اس ریاست کے حاکموں، اداروں کے سربراہوں، وزیروں ، مشیروں اور سفیروں کے بارے میں تاریخ کیا الفاظ استعمال کرے گی؟ وہ صوبے جو کبھی پورے جنوبی ایشیا کو اناج فراہم کرتے تھے۔ وہاں اناج کی کمی حکمرانوں کی نا اہلی کے علاوہ کیا سمجھی جا سکتی ہے۔ اس وقت پاکستان میں ہر سیاسی پارٹی کہیں نہ کہیں حکمران ہے۔ 13 سیاسی جماعتوں پر مشتمل اتحادی حکومت کو اسٹیبلشمنٹ کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ اس طرح اس بد قسمت ملک کی قیادت کے جو بھی دعویدار ہیں، وہ کہیں نہ کہیں فیصلہ ساز بھی ہیں۔ ہر سنگھ کی موت کے سب ذمہ دار ہیں۔ جس طرح 1992 میں امریکی صدر جارج بش عام امریکیوں کی اقتصادی ضروریات کو اہمیت نہیں دے رہا تھا۔ اسے یہ یاد دلانا پڑا IT IS THE ECONOMY STUPID ۔ اور معیشت کو اہمیت نہ دینے کی پاداش میں وہ الیکشن ہار بھی گیا۔ اس وقت امریکہ میں سیاسی محاذ آرائی اپنے عروج پر تھی۔
پاکستان میں اب 2023 میں سیاسی کلچر تصادم، الزامات، تضادات اور ایک دوسرے پر یلغار سے بھرپور ہے۔ پگڑیاں اچھالی جارہی ہیں۔ کپڑے اتارے جارہے ہیں۔ نجی زندگی کی دھجیاں بکھیری جارہی ہیں۔ کساد بازاری ایسی کہ پہلے کبھی نہ دیکھی گئی۔ افراط زر اس بلندی تک کبھی نہیں پہنچا۔ یہی چہرے 1988 سے راج کرتے آ رہے ہیں۔ ان کا حکومتی تجربہ پختہ ہو گیا ہے۔ 2018 تک یہی باریاں لے رہے تھے۔ اتنی طویل مسلسل حکمرانی کے بعد تو ملک کو خود کفیل اور معیشت کو مستحکم ہو جانا چاہئے تھا۔ ہمارے قدرتی وسائل پوری طرح استعمال ہو رہے ہوتے۔ سونا تانبا، قیمتی پتھر، گیس اور تیل سب نکل رہے ہوتے۔ ہماری زرخیز زمینوں کی پیداواری صلاحیت فی ایکڑ بڑھ گئی ہوتی۔ غیر ملکی قرضے تو مگربڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں۔ یہ قرضے کہاں گئے؟ ان سے کون سے منصوبے تعمیر ہوئے۔
قرضے کسی نے بھی لئے۔ قرضے اتارنے تو ہیں۔ یہ ہماری قوم کی حیثیت سے ذمہ داری ہے۔ ہم ایک دوسرے پر الزام عائد کر کے ان سے بچ تو نہیں سکتے۔ قرضوں کی ادائیگی اور اپنے مسائل کے حل میں مدد کے لئے ہم جن امیر ریاستوں کے سامنے ہاتھ پھیلا رہے ہیں۔ ان کے حکمران تو اب با آواز بلند یہ کہنے لگے ہیں کہ آپ کے ٹیکس دہندگان جب ٹیکس نہیں دے رہے اور آپ ان سے ٹیکس حاصل کرنے میں ناکام ہیں تو ہمارا ٹیکس دہندہ ہم سے کہہ رہا ہے کہ ہم ایسی قوم کی مدد کیوں کریں، جو اپنے ٹیکس دہندگان سے ٹیکس وصول نہیں کر پاتی۔ دوسری طرف جو ٹیکس دہندگان ہیں۔ وہ اپنے کارخانے بند کر رہے ہیں۔ انہیں گیس نہیں مل رہی۔ بجلی نہیں ہے۔ ان کی پیداوار نہیں ہے۔ تو ان سے ٹیکس بھی کم ملے گا۔ حکومت وقت کی اولین ذمہ داری تو یہ تھی اور ہے کہ وہ معیشت کو مستحکم کرے۔ ماہرین کے مشورے کے بعد ضروری راستے اختیار کئے جائیں۔
شور مچا ہوا ہے کہ ملک دیوالیہ ہونے والا ہے۔ کوئی ریاست جب اپنے بیرونی قرضوں کی قسطیں ادا نہ کر سکے۔ اس پر سود کی ادائیگی سے قاصر ہو تو اس ملک کو دیوالیہ قرار دے دیا جاتا ہے۔ اس کے تجارتی جہاز دنیا میں کہیں بھی ہوں۔ ضبط کر لئے جائیں۔ اکائونٹس منجمد کر دیے جائیں۔ اندرونی قرضوں کی ادائیگی تو نوٹ چھاپ کر ہو جاتی ہے۔ بیرونی قرضوں کی ادائیگی تو ڈالر سے ہی ہو سکتی ہے ڈالر ہمارے پاس نہیں ہیں۔ ہماری قرضے لینے کی اہلیت بھی گر رہی ہے۔ مزید قرضے نہیں مل سکتے۔ جنیوا میں ہمارے لئے امدادی کانفرنس ہوئی ہے۔ ہماری کمزور معیشت وہاں بھی زیادہ رقوم لینے میں حائل رہی ہے۔ مقامی بینکوں میں ڈالر اکائونٹ رکھنے والے سخت پریشان ہیں۔ خدانخواستہ ملک دیوالیہ ہوا تو سب اس کی زد میں آئینگے۔ حکمراں طبقے، ریاستی ادارے، اپوزیشن، سب سے زیادہ متاثر ہوں گے غریب عوام، ہمارے ماہرین، اساتذہ ، یونیورسٹیاں اور میڈیا۔ یہ ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ تاریخ کی روشنی میں یہ تجاویز دیں کہ ملک کو اس صورت حال سے کیسے نکالا جائے۔
معیشت کی بد حالی پر واویلا کرنے کی بجائے راہِ نجات کا تعین کیا جائے۔ امیر ملکوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی بجائے اپنے سرمایہ داروں، ٹھیکیداروں اور جاگیرداروں کے اثاثے قومی تحویل میں لے کر اپنے پائوں پر کھڑا ہوا جائے۔ قوم کو سادگی اور کفایت شعاری کے راستے بتائے جائیں۔ وزیروں مشیروں کی تعداد کم کی جائے۔ تین چار سال کیلئے ساری سرکاری مراعات ختم کی جائیں۔ جناب وزیر اعظم : اصل مسئلہ معیشت ہے۔
0 Comments