پاکستان ایک آزاد اورخود مختار ریاست ہے جس کا اپنا آئین اور قانون ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ارباب اقتدار کی غلامانہ اور مفلوج سوچ نے ملک کو بحرانوں میں مبتلا کر دیا ہے۔ ملک و قوم کو ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو حقیقی معنوں میں محب وطن اور عوام کی ترجمان ہو۔ ملک میں دن بدن کرپشن بڑھتی جا رہی ہے۔اس وقت چونسٹھ فیصد غریب شہری اپنے جائز کام کروانے کیلئے بھی رشوت کا سہارا لینے پر مجبور ہیں۔ پاکستان کی 76 سالہ تاریخ گواہ ہے کہ وطن عزیز میں کرپشن کی جڑیں روزِ اول سے ہیں جو وقت کیساتھ اب مضبوط ہو چکی ہیں اور یہ قومی وجود کو دن بدن دیمک کی طرح کھا رہی ہے۔ کرپشن ایک ایسا عفریت ہے جو کسی ریاست کے نظم حکمرانی اور معاشرتی ڈھانچے کو تہہ وبالا کرنے کا باعث بنتی ہے۔ امر واقعہ ہے کہ وطن عزیز پاکستان میں داخلی انتشار، افراتفری اور سیاسی عدم استحکام نے ملک کونا قابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ اس وقت حکومت کے بیرونی قرضوں میں مجموعی طور پر 3 ہزار 919 ارب روپے کا مزید اضافہ ہو گیا ہے مگر دوسری طرف حکومت جھوٹے دعووں کے ذریعے عوام کو گمراہ کر رہی ہے۔ معیشت کی بحالی موجودہ پالیسیوں سے ممکن نہیں لگتی۔ طرفا تماشا یہ ہے کہ پنجاب میں رواں سال گندم کی کاشت کا ہدف ساڑھے 16 ملین ایکڑ کا تھا مگر صرف 12 ملین ایکڑ رقبے پر گندم کی فصل کی کاشت ہوئی ہے۔
اس وقت پاکستان میں بجلی کی قیمت خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں دگنی ہے، اگر بجلی کی قیمت 9 سینٹ فی یونٹ ہو جائے تو ٹیکسٹائل ایکسپورٹ چند سالوں میں دگنی ہو سکتی ہے۔ اسٹیٹ بینک کو شرح سود میں کمی کے لئے فوری اقدامات کرنا چاہئیں۔ ایشیائی ترقیاتی بینک سے 33 کروڑ ڈالر قرض کا حصول بھی ملکی معیشت کو مزید مشکلات سے دوچار کرے گا۔ المیہ یہ ہے کہ حکومت نے قرضوں کے پہاڑ کھڑے کر دیئے ہیں۔ عوام کی فلاح و بہبود کے نام پر وصول کیا جانے والا قرض درحقیقت اشرافیہ کے اللوں تللوں اور پروٹوکول پر خرچ ہو جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج ملک کے اندر ہر پاکستانی تین لاکھ روپے کا مقروض ہو چکا ہے۔ آج پاکستان کو جن مسائل کا سامنا ہے ان میں کمزور معیشت، دہشت گردی، سیاسی عدم استحکام اور باہمی اتحاد ویگانگت کی کمی جیسے مسائل اہم ترین ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ قرض اتارنے کیلئے مزید قرض لینا پڑ رہا ہے، آئے دن بجلی، گیس اور تیل کے نرخ بھی بڑھائے جاتے ہیں جس نے عام آدمی کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ملک میں سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابرہے جبکہ تجارتی خسارہ بھی بڑھتا چلا جا رہا ہے، ترقی کی شرح خطرناک حد تک کم ہو گئی ہے جبکہ کاروبار انتہائی سست روی کا شکار ہے۔
وقت کا تقاضا ہے کہ ہمارے ارباب اقتدار ایسی پالیسیاں مرتب کریں جن سے ملک و قوم کی عز ت و وقار میں اضافہ ہو۔ امریکہ سمیت دنیا کے کسی بھی ملک کے ساتھ تعلقات کو برابری کی سطح پر استوار کرنے کے لئے ہمیں کشکول لے کر دنیا میں گھومنے کا سلسلہ ختم کرنا ہو گا۔ مقام افسوس ہے کہ ہمارے بیشتر حکمرانوں نے کفایت شعاری کی بجائے قوم کو بھکاری کا تشخص دیکر پوری دنیا میں رسوا کر دیا ہے۔ لمحہ فکریہ ہے کہ بنگلہ دیش، بھارت سمیت چین، جنوبی کوریا، ملائشیا، جنوبی افریقہ جیسے ممالک جو ہمارے بعد آزاد ہوئے وہ ہم سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ ہیں۔ پاکستان خطے کا سب سے مہنگا ترین ملک بن چکا ہے عوام کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے اشیاخوردونوش کی قیمتوں میں ہوشر با اضافے کے بعد ہر چیز قوت خرید سے باہر ہو گئی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت مراعات یافتہ طبقے کی حکومت ہے، جسے مافیاز نے چاروں اطراف سے گھیرا ہوا ہے۔ اب کسانوں کا معاشی قتل عام کر کے زراعت کو بھی تباہ و برباد کیا جا رہا ہے۔ کاشتکار شدید پریشان ہیں انھیں فصلوں کے سرکاری ریٹ نہیں دیئے جا رہے۔
سرکاری محکموں کی صورتحال بھی دگرگوں ہے۔ 2014ء سے ابتک مجموعی طور پر اداروں کو 5900 ارب روپے کا نقصان پہنچ چکا ہے۔ سرکاری ادارے تباہی کی طرف بڑھ رہے ہیں جب کہ حکمران صرف اقتدار کو انجوائے کرنے میں مصروف ہیں۔ بد قسمتی سے ملک کے اندر مافیاز اور اشرافیہ کے سوا کوئی ایک طبقہ بھی ایسا نہیں جو خوشحال ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو ملک میں مہنگائی بدامنی، بیروزگاری اورسیاسی ومعاشی عدم استحکام ختم کرنے کی فکرکرنی چاہئے۔ ملک اس وقت مشکل حالات سے گزر رہا ہے نہ امن وامان ہے اور نہ بنیادی سہولیات، معیشت کی صورتحال بھی بہت خراب ہے۔ ان حالات میں وفاقی وزیر خزانہ کی جانب سے مزید ٹیکس لگانے کے بیان سے عوام میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ آئندہ تین برسوں میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح 10.3 سے بڑھا کر 13.5 فیصد تک لے جانے کے اقدامات کیے جارہے ہیں۔ جس سے ثابت ہوتا کہ حکومت قوم کے ساتھ جھوٹ بول رہی ہے۔ حکومت کو ٹیکسوں کی شرح بڑھانے کی بجائے ملک میں بڑے ٹیکس نا دہندگان کو ٹارگٹ کرنا چاہئے نا کہ وہ مسلسل غریبوں پر ہی بوجھ ڈالتی جائے۔
0 Comments