Pakistan

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

معیشت کی بحالی کیلئے آخری موقع

گزشتہ دنوں میری کراچی اور اسلام آباد میں ملکی معیشت پر گہری نظر رکھنے والے دوستوں سے ملاقاتیں ہوئیں جن میں زیادہ تر نے معیشت کی بحالی کیلئے سخت اقدامات کئے جانے کو آخری موقع (Lifeline) قرار دیا۔ انکا کہنا ہے کہ پاکستان کے پاس اب وقت نہیں کہ وہ ان اقدامات کو مزید موخر کرسکے۔ میں بھی ان سے اتفاق کرتا ہوں کہ پاکستانی معیشت اب اس ڈگر پر آگئی ہے جہاں ہمیں سیاسی سمجھوتوں کے بجائے ملکی مفاد میں سخت اقدامات کرنا ہوں گے۔ گزشتہ دنوں کراچی میں ملک کے ممتاز صنعتکاروں اور بزنس مینوں کی ایک ’’گریٹ ڈیبیٹ‘‘ اور اسلام آباد میں ’’لیڈرز اِن اسلام آباد بزنس سمٹ‘‘ میں چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب، وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال، سابق گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر عشرت حسین، معاشی ماہرین اور میں نے ملکی معیشت پر اہم تجاویز دیں جس میں معیشت کی بہتری کیلئے اسٹیٹ بینک کے 22 فیصد ڈسکائونٹ ریٹ اور حکومتی اخراجات میں کمی، درآمدات میں اضافہ، ٹیکس نیٹ میں توسیع، خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں PIA، واپڈا، ریلویز، ڈسکوز جو 500 ارب روپے سالانہ کا نقصان کر رہے ہیں، کی فوری نجکاری، صنعتی سیکٹر کو مقابلاتی اور سستی توانائی کی فراہمی شامل ہے۔

دوست ممالک بھی اب مالی امداد کے بجائے پاکستان میں سرمایہ کاری کو ترجیح دے رہے ہیں لیکن اس کیلئے ملک میں امن و امان کی بہتر صورتحال اور سیاسی استحکام اشد ضروری ہے جو موجودہ حالات میں نظر نہیں آرہا۔ بینکوں کی 24 فیصد شرح سود پر کوئی سرمایہ کار نئی صنعت لگانے کو تیار نہیں بلکہ موجودہ صورت حال میں بینکوں کے نجی شعبے کے قرضوں میں 80 فیصد کمی آئی ہے جس سے معاشی گروتھ متاثر ہوئی ہے۔ حکومت کے زیادہ شرح سود پر قرضے لینے کی وجہ سے ہمیں 8500 ارب روپے کے بجٹ خسارے کا سامنا ہے۔ اسٹیٹ بینک کے ڈسکائونٹ ریٹ میں کمی لاکر ہم بجٹ خسارے میں 2500 ارب روپے کی کمی لاسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ معیشت کی دستاویزی سے ہم 3000 ارب روپے کا اضافی ریونیو حاصل کر سکتے ہیں۔ صرف رئیل اسٹیٹ، زراعت اور ریٹیل کے شعبوں میں 2000 ارب روپے کی ٹیکس کی چوری ہے۔ حکومت کو اپنے اخراجات میں کمی اور ریونیو یعنی آمدنی میں اضافہ کرنا ہو گا۔ روپے کی قدر کو مصنوعی طور پر کنٹرول کرنے کے نقصانات ہم بھگت چکے ہیں لہٰذا ہمیں روپے کی قدر اور ڈالر ریٹ کو مارکیٹ میکنزم کے حساب سے طلب اور سپلائی کے مطابق رکھنا ہو گا۔ 

افراط زر یعنی مہنگائی 17.3 فیصد ہو چکی ہے جو مئی 2023 ء میں 38 فیصد کی بلند ترین شرح تک پہنچ چکی تھی اور اسے بتدریج کم کر کے سنگل ڈیجٹ پر لانا ہو گا تاکہ اسٹیٹ بینک کے پالیسی ریٹ میں کمی لائی جاسکے۔ گوکہ آئی ایم ایف کے نئے پروگرام میں رہتے ہوئے ان اقدامات پر عمل کرنا انتہائی مشکل ہے تاہم ان سے آئندہ 2 سال میں ملکی معیشت میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔ ہمیں اپنے توانائی اور ٹیکس کے شعبوں میں ہنگامی بنیادوں پر اصلاحات کرنا ہونگی۔ پرانے IPPs معاہدوں کی تجدید ملک میں توانائی کی طلب کو مدنظر رکھتے ہوئے مقابلاتی آفر (Bidding) پر کی جائے تاکہ بجلی نہ خریدنے کی صورت میں حکومت کو کیپسٹی سرچارج کی ناقابل برداشت ادائیگی نہ کرنا پڑے جس کے باعث پاکستان کے گردشی قرضے بڑھ کر ریکارڈ 5500 ارب روپے تک پہنچ گئے ہیں۔ ہمیں ٹیکس نظام میں اصلاحات کی سخت ضرورت ہے۔ زراعت کا شعبہ جس کا معیشت میں حصہ 20 فیصد ہے، بمشکل 1.5 فیصد ٹیکس ادا کرتا ہے جبکہ ٹریڈر جس کا ملکی جی ڈی پی میں 18 فیصد حصہ ہے، بمشکل ایک فیصد ٹیکس ادا کرتا ہے، یہی حال رئیل اسٹیٹ سیکٹر کا ہے جبکہ صنعتی سیکٹر، جس کا ملکی معیشت میں حصہ 20 فیصد ہے، پر ٹیکسوں کا 65 فیصد بوجھ ہے۔ 

اسی طرح سروس سیکٹر کا جی ڈی پی میں حصہ 60 فیصد ہے لیکن یہ سیکٹر صرف 28 فیصد ٹیکس ادا کرتا ہے لہٰذا ہمیں ملکی معیشت کے ہر سیکٹر سے اس کے حصے کے مطابق ٹیکسوں کی وصولی یقینی بنانا ہو گی جس کیلئے حکومت کو اپنی رٹ قائم کرنا ہو گی۔ پاکستان کی جی ڈی پی میں ٹیکس کی شرح 9 فیصد ہے جسے بڑھاکر ہمیں خطے کے دیگر ممالک کی طرح 18 فیصد تک لے جانا ہو گا جو آئی ایم ایف کی شرائط میں بھی شامل ہے۔ پاکستان میں سرمایہ کاری میں کمی کی وجہ خطے میں سب سے زیادہ توانائی کے نرخ، بینکوں کے شرح سود اور ٹیکس ریٹ ہیں جو سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ مہنگی بجلی اور گیس کے نرخ کی وجہ سے ہماری ایکسپورٹس غیر مقابلاتی ہورہی ہیں لہٰذا حکومت کو سرمایہ کاری کے فروغ کیلئے ان تینوں رکاوٹوں کو دور کرنا ہو گا۔ پاکستان کے زراعت اور IT سیکٹرز میں بے پناہ پوٹینشل موجود ہے جنہیں فروغ دیکر ہم فوری طور پر ایکسپورٹس میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ ہمیں ایران اور خلیجی ممالک بالخصوص سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت اور قطر کیساتھ باہمی تجارت اور سرمایہ کاری کو فروغ دینا ہو گا۔ 

مجھے خوشی ہے کہ آئی ایم ایف کے موجودہ پروگرام کی 1.1 ارب ڈالر کی آخری قسط پاکستان کو موصول ہو گئی ہے جس نے ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم کیا ہے۔ حکومت پاکستان نے آئی ایم ایف سے 6 سے 8 ارب ڈالر کے 3 سال یا زیادہ مدت کے قرض پروگرام کی درخواست کی ہے جس پر مذاکرات کیلئے آئی ایم ایف کا مشن دو ہفتے کے دورے پر پاکستان آئے گا۔ آئی ایم ایف نے پنشن پر ٹیکس کا نفاذ اور پنشن ادائیگی کی مدت میں کمی پر زور دیا ہے۔ اسکے علاوہ حکومت کو بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مزید اضافے کیلئے بھی سخت فیصلے کرنا ہونگے۔ موجودہ صورتحال میں پاکستان کے پاس اب مزید وقت نہیں کہ وہ ملکی معیشت کی بحالی کیلئے ایڈہاک فیصلے کرے۔ حکومت کے پاس یہ آخری موقع ہے کہ وہ مذکورہ اصلاحات پر عملدرآمد کرکے ملک کو معاشی خوشحالی کی راہ پر گامزن کرے۔

ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ

بشکریہ روزنامہ جنگ

Post a Comment

0 Comments