وطن عزیز میں اعلیٰ تعلیم کا مستقبل ایک بار پھر خطرے کی زد میں ہے۔ ٹیکنالوجی کے پھیلائو کے اس دور میں جب دنیا کے تمام ترقی یافتہ اور ترقی کی خواہش رکھنے والے ممالک اعلیٰ تعلیم کے میدان میں سرمایہ کاری بڑھا کر بہتر امکانات و نتائج پر خاص توجہ دے رہے ہیں، یہ بات کسی طور مناسب نہیں کہ رواں مالی سال 2024-25ء کے جاری بجٹ میں بڑی کٹوتی کر کے ایک طرف اسے 65 ارب روپے سے گھٹا کر 25 ارب روپے کی نچلی سطح پر رکھ دیا گیا۔ دوسری جانب اسے صرف وفاقی جامعات تک محدود کر دیا گیا۔ اس حوالے سے وزارت خزانہ کی جانب سے ہائر ایجوکیشن کمیشن کو خط بھی لکھ دیا گیا ہے جس نے ملک کی 160 سے زائد سرکاری جامعات کیلئے 126 ارب روپے کی درخواست کر رکھی تھی۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کو ایک اور گھائو یہ لگا کہ منصوبہ بندی کمیشن نے اعلیٰ تعلیمی کمیشن کا ترقیاتی بجٹ 59 ارب روپے سے کم کر کے 21 ارب روپے کر دیا ہے۔
اعلیٰ تعلیم کے ادارے علم و آگہی کے ایسے جزیرے ہیں جہاں سے مختلف شعبوں میں فارغ التحصیل ہونیوالے نوجوان معیشت، صنعت، طب، زراعت اور کارپوریٹ سیکٹر سمیت ہر شعبے کو نئے رجحانات سے آشکارا کرتے اور ترقی و امکانات کے مواقع پیدا کرتے ہیں۔ ان اداروں کے اعلیٰ تعلیمی معیار اور تحقیقی کام پر سمجھوتے سے گریز کرتے ہوئے انہیں مالی اعتبار سے پیروں پر کھڑا کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں اشرافیہ کیلئے بیرون ملک اعلیٰ تعلیم کے سارے مواقع دستیاب ہیں، کم وسائل کے حامل لائق نوجوانوں کی تعلیم و تربیت اور خود ملکی ترقی وخوشحالی کیلئے اندرون ملک قائم اعلیٰ تعلیم کے ادارے غنیمت ہیں جن کے تعلیمی و تحقیق معیار اور ترقیاتی ضروریات سے کسی طور صرف نظر نہیں کیا جانا چاہئے۔ دوسری طرف ہمیں دوست ملکوں سے تعلیمی نظام سمیت کئی شعبوں میں اصلاح و بہتری کیلئے معاونت کے حصول میں کوئی عار نہیں ہونا چاہئے۔