Pakistan

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

چین کے افغانستان میں بڑھتے ہوئے قدم، امکانات اور چیلنج

اگست 2021 میں افغانستان سے امریکی انخلا کے دو سال بعد، چین افغانستان میں سب سے بااثرملک کے طور پر ابھرا ہے۔ چین واشنگٹن کے افغانستان سے نکلنے کی وجہ سے پیدا ہونے والے خلا سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے سفارتی اور سٹریٹجک اثررسوخ کو بڑھا رہا ہے۔ چین خطے میں ایک نجات دہندہ اور علاقائی شراکت دار کے طور پر اپنی اہمیت اجاگر کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ چین کا موجودہ نقطہ نظر بنیادی طور پر نایاب زمینی معدنیات کی تلاش، یوریشیا کے ساتھ علاقائی روابط کے کوششیں اور سلامتی کے خدشات کے گرد گھومنے والے اس کے معاشی مفادات پر مبنی ہے۔ سفارتی سطح پر بیجنگ اور کابل دونوں نے ایک دوسرے کے ممالک میں اپنے سفیر تعینات کیے ہیں۔ دنیا میں چین پہلا ملک ہے جس نے طالبان کے نامزد سفیر کو قبول کرنے کے ساتھ ساتھ کابل میں اپنا سفیر بھی مقرر کیا ہے۔ تاہم بیجنگ نے احتیاط برتتے ہوئے طالبان کی حکومت کو سفارتی طور پر تسلیم نہیں کیا۔ چین طالبان کے ساتھ اپنے تعلقات کو اس سطح تک مضبوط کرنے کا سوچ رہا ہے جہاں سب پہلے اقتصادی، معدنی اور قدرتی وسائل تک رسائی کے ساتھ مغربی ممالک کی موجودگی بہت کم ہو۔ 

طالبان کے لیے، چینی پیسہ اہمیت کا عامل ہے اور یہ طالبان کی حکومت کی معیشت کو پائیدار طریقے سے سنبھالنے کی صلاحیت میں عام افغانوں کا اعتماد بحال کرنے میں بھی مددگار ہو سکتا ہے۔ اقتصادی محاذ پر، چینی کمپنیاں سکیورٹی خدشات کے باوجود خاص طور پر کان کنی کے شعبے میں کاروباری مواقع تلاش کرنے کے لیے افغانستان کا دورہ کرتی رہتی ہیں۔ افغانستان میں چین کے سفیر واگ یو طالبان کے وزرا اور دیگر سرکاری حکام سے باقاعدہ ملاقاتیں کرتے رہتے ہیں۔ جولائی 2023 میں، طالبان نے اعلان کیا کہ فین چائنا افغان مائننگ پروسیسنگ اینڈ ٹریڈنگ کمپنی بجلی کی پیداوار، سیمنٹ، مینوفیکچرنگ اور صحت کی دیکھ بھال کے شعبوں میں 350 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ اسی طرح، جنوری 2023 میں، طالبان نے شمالی افغانستان میں دریائے آمو کے آس پاس تیل کی تلاش کے لیے سنکیانگ سینٹرل ایشیا پیٹرولیم اینڈ گیس کمپنی کے ساتھ ایک معاہدہ کیا۔
اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد یہ طالبان کا پہلا اہم اقتصادی معاہدہ تھا اور اس کا آغاز 150 ملین ڈالر کے سالانہ سرمایہ کاری سے ہوا، جس کا حجم تین سال میں 540 ملین ڈالر تک پہنچ سکتا ہے۔

آمو دریا وسط ایشیائی ممالک اور افغانستان کے درمیان پھیلا ہوا ہے جو 4.5 مربع کلومیٹر پر محیط ہے۔ معاہدے کے مطابق طالبان کو تیل اور گیس کی تلاش کا 20 فیصد حصہ ملے گا، جو مستقبل میں 75 فیصد تک بڑھ جائے گا۔ جولائی 2022 کے بعد سے، چین نے 98 فیصد افغان اشیا پر صفر ٹیرف عائد کیا ہے اور افغان پائن نٹ کی درآمد میں اضافہ کیا ہے۔ ٹیرف میں کمی افغان معیشت کو چین کی معیشت کے ساتھ ہم آہنگ کرتی ہے۔ افغانستان میں لیتھیم، تانبے اور نایاب زمینی معدنیات کے وسیع ذخائر میں بھی چین کو بہت دلچسپی ہے۔ خام مال کے دنیا کے سب سے بڑے خریدار کے طور پر، چین افغانستان کے غیر استعمال شدہ قدرتی وسائل کو اس کی اقتصادی توسیع اور تکنیکی ترقی کے لیے اہم سمجھتا ہے۔ چین سے عالمی سپلائی لائن کو الگ کرنے اور چینی ٹیکنالوجی کمپنیوں کی نینو چِپس تک رسائی کو محدود کرنے کی امریکی کوششوں کی وجہ سے یہ قدرتی وسائل تک رسائی چین کی اقتصادی استحکام اور عالمی سطح پر توسیع کے لیے اور بھی اہم ہو گئی ہے۔ یہ نایاب زمینی معدنیات برقی گاڑیوں، سمارٹ فونز اور الیکٹرانک بیٹریوں میں استعمال ہوتی ہیں۔

اس کے علاوہ، چین کو ترکستان اسلامک پارٹی (ٹی آئی پی) جسے چین مخالف عسکریت پسند گروپوں جسے مشرقی ترکستان اسلامک پارٹی بھی کہا جاتا ہے اور داعش خراسان کی موجودگی سے تشویش ہے۔ طالبان حکومت نے (ٹی آئی پی) کو کنٹرول کرنے اور چین کے خلاف حملوں کے لیے افغان سرزمین کے استعمال کو روکنے میں چین کے ساتھ تعاون کیا ہے اور اس کے باوجود اقوام متحدہ کی رپورٹوں کے مطابق، گروپ کی تعداد 300 سے بڑھ کر 1,200 تک پہنچ گئی ہے۔ اسی طرح، ٹی آئی پی نے اپنے آپریشنل اڈوں کی تشکیل نو کے ساتھ داعش خراسان اور تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ آپریشنل تعلقات قائم کر کے ہتھیار بھی حاصل کیے ہیں۔ اگرچہ طالبان نے (ٹی آئی پی) عسکریت پسندوں کو شمالی صوبہ بدخشاں سے چین کی سرحد کے قریب منتقل کیا، لیکن وہ واپس بدخشاں چلے گئے ہیں۔ اب، چین طالبان سے کہہ رہا ہے کہ وہ ٹی آئی پی کے عسکریت پسندوں کو گرفتار کر کے ان کے حوالے کریں۔ تاہم طالبان اس مطالبے کو پورا کرنے سے گریزاں ہیں۔ 

ٹی آئی پی عسکریت پسند ایک دوراہے پر ہیں انہوں نے طالبان کے ساتھ اس کے بنیادی مقصد ایک خود مختار مشرقی ترکستان ریاست کا قیام کے لیے مدد حاصل کرنے کی امید میں تعاون کیا۔ طالبان نے چین کے کہنے پر ٹی آئی پی پر دباؤ ڈالا ہے۔ تاہم، دو سال کی خاموشی کے بعد ٹی آئی پی کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ہے اور اس کے کچھ عسکریت پسند پہلے ہی داعش خراسان میں شامل ہو چکے ہیں اور اگر طالبان نے اپنی آپریشنل سرگرمیوں پر پابندی نہیں ہٹائی تو اسے مزید نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ انہوں نے پہلے ہی اس کے متبادل کے طور پر ٹی ٹی پی اور داعش خراسان کے ساتھ قریبی آپریشنل روابط قائم کر لیے ہیں۔ مختصراً، بڑھتے ہوئے تعلقات کے باوجود اففانستان میں چین کی سلامتی کے لیے خطرات بدستور برقرار ہیں، جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے تعلقات ایک حد سے زیادہ مستحکم نہیں۔ آنے والے برسوں میں طالبان چین کے مستقبل کے تعلقات کا رخ یہی سکیورٹی مسائل متعین کریں گے۔

عبدالباسط خان  

مصنف ایس راجارتنم سکول آف انٹرنیشنل سٹڈیز، سنگاپور میں سینیئر ایسوسی ایٹ فیلو ہیں۔

بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو

Post a Comment

0 Comments