Pakistan

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

جوڑ توڑ اور اقتدار کی سیاست کا کھیل

پاکستانی سیاست کا بڑا کھلاڑی وہی ہوتا ہے جو جوڑ توڑ کی مہارت سے اقتدار تک پہنچنے کا راستہ ہموار کرتا ہے۔ پاکستان جو سیاسی قیادت یا جماعت اسٹیبلیشمنٹ کے قریب سمجھی جاتی ہے، اس کے لیے اقتدار کا کھیل کافی آسانیاں کو پیدا کرتا ہے۔ یہ بات بجا کہ سیاست کا ایک بڑا مقصد اقتدار تک رسائی کو ممکن بنانا ہوتا ہے اور سیاسی جماعتیں اس کی بنیاد پر عملی سیاست کرتی ہیں۔ لیکن اگر سیاسی جوڑ توڑ کا کھیل یا اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ اقتدار کے کھیل کی کہانی محض اقتدار کے کھیل تک محدود رہتی ہے اور اس کھیل سے قومی مفاد یا عوامی مفاد کی کوئی جھلک نہ نظر آئے تو ایسی سیاست افراد کی طاقت کے گرد ہی گھومتی ہے۔ پاکستانی سیاست کی یہ بدقسمتی ہے کہ سیاسی جوڑ توڑ کا کھیل ہو یا اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ بہتر تعلقات کی بنیاد پر اقتدار کے حصول کا کھیل دونوں کھیل میں عام آدمی کی سیاست کافی کمزور نظر آتی ہے۔ یہ کھیل انفرادی سطح سے شروع ہو کر خاندانی اور خاندان کے بعد مخصوص دوستوں کی مرہون منت رہتا ہے۔ اگر اقتدار کا کھیل ملک میں پہلے سے جاری بحران یا مسائل و مشکلات کے حل کا سبب نہیں بنتا اور اس کھیل نے پہلے سے موجود حالات میں اور زیادہ بگاڑ پیدا کرنا ہے تو پھر یہ کھیل مخصوص لوگوں کے مفادات تک ہی محدود رہے گا۔ 

اس کھیل میں فی الحال عوام کے لیے کچھ نہیں ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ عوام اور سیاست و جمہوریت یا اقتدار کے کھیل کے درمیان ایک واضح اور بڑی خلیج موجود ہے جو اس نظام حکومت پر بھی عدم اعتماد کو پیدا کرتا ہے۔ ہماری اشرافیہ یا رائے عامہ تشکیل دینے والے افراد اور اداروں میں بھی سیاسی محاذ پر ایسی ہی سیاسی قیادتوں کی پزیرائی کی جاتی ہے یا ان کی سیاسی حیثیت کو تسلیم کیا جاتا ہے جو جتنا بڑا جوڑتوڑ کا کھلاڑی ہوتا ہے۔ جب اس جوڑ توڑ میں غیر جمہوری , غیر آئینی اور غیر قانونی یا غیر اخلاقی حوالوں سے بات کی جاتی ہے تو منطق یہ دی جاتی ہے کہ اسی کا نام سیاست ہے اور سیاست میں اصول کو بنیاد بنا کر اگر آگے بڑھا جائے گا تو پھر کامیابی کے امکانات کم اور مایوسی یا ناکامی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ ہماری سیاست کا کھیل ہی بے اصولی اور بار بار کے یوٹرن کے گرد گھومتے ہیں اور ہم انھیں کامیاب سیاسی چال کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا وجہ ہے کہ ہمارے اقتدار کے کھیل میں ہمیں جو بندر بانٹ نظر آتی ہے اس میں ریاستی , ملکی, عوامی مفادات کی جھلک کیونکر نہیں ہوتی۔

اگر ایسا ہی چلتا رہے گا تو پھر سیاسی اور جمہوری نظام کی ساکھ یا شفافیت کیسے پیدا ہو گی۔ کیا پاکستانی سیاست میں موجود اقتدار کے کھیل کی بندر بانٹ میں چاہے وہ سیاسی فریقوں کے درمیان ہو یا سیاسی فریقوں کی اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ ہو اس میں ہم عام آدمی کا مقدمہ پیش کر سکتے ہیں یا ان کے مفادات کو جوڑ کر اقتدار کے کھیل کے سیاسی رنگ سجائے جاسکتے ہیں۔ کیونکہ اگر عام آدمی یا ملکی مفادات کے معاملات کو پس پشت ڈال دیا جائے تو پھر اس مجموعی سیاست اور جمہوریت کے کھیل سے ایک مضبوط ریاست اور حکمرانی کے نظام کا تصور پس پشت چلا جائے گا۔ کیا ہمارے یہاں اہل دانش کی جانب سے اس طرز کی سیاست جو مخصوص افراد یا خاندان کے مفادات یا مخصوص اداروں تک محدور رہتی ہے پر مزاحمتی عمل طاقت پکڑ سکے گا۔ کیونکہ کب تک ہم سیاست اور جمہوریت کے نام پر اس طرح کے مصنوعی سیاسی نظام کی سیاسی آبیاری کرتے رہیں گے اور کب تک اس طرز کے عوام دشمن نظام کو جمہوریت کی چھتری دیتے رہیں گے,  یہ موجودہ نظام زیادہ دیر تک اسی طرح نہیں چلایا جاسکے گا۔ 

اہل سیاست سیاسی جوڑتوڑ اور اقتدار کے کھیل میں عوام کو اپنے حق میں استعمال کرتے ہیں اوران کی پہلی ترجیح یہ ہی ہوتی ہے کہ وہ اپنے اقتدار کے کھیل میں اپنے ووٹرو ں کو سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔ جذباتیت، نفرت یا تعصب، سیاسی دشمنی کے کھیل کو بنیاد بنا کر سیاسی تقسیم پیدا کرتے ہیں۔ جب عوام سے جڑے حقیقی مسائل پر بات چیت ہی نہیں ہونی تو پھر قومی سیاست کو غیر ضروری اور غیر سنجید ہ ایشوز درکار ہوتے ہیں تاکہ وہ اپنے حمایت یافتہ افراد کو ذندہ باد اور مردہ باد کے نعروں تک محدود کر کے اپنے سیاسی مفادات کو فائدہ پہنچاتے رہیں۔ سیاست کا دائرہ کار اسی اصولی , جمہوری , سیاسی , اخلاقی , آئینی اور قانونی نکات کی بنیاد پر ہی آگے بڑھ سکتا ہے۔ اسی بنیاد پر معاشروں میں ہم مضبوط جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کا تصور پنپتے ہوئے دیکھ سکیں گے۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ہماری سیاسی اور جمہوری یا آئینی یا قانونی جدوجہد اسی فریم ورک کے دائرہ کار میں ہو۔ لیکن یہ کام آسانی سے نہیں ہو گا بلکہ اس کے لیے ہمیں ایک منظم اور متحد ہو کر جدوجہد کو آگے بڑھانا ہو گا۔ 

سیاسی جماعتیں ہوں یا سیاسی قیادتیں یا سول سوسائٹی یا میڈیا یا عدلیہ سمیت اسٹیبلیشمنٹ سب کے طرز عمل کو اسی آئینی اور قانونی یا جمہوری فریم ورک میں دیکھنا ہو گا اور اسی بنیاد پر ان کو جوابدہ بھی بنانا ہو گا۔عمومی طور پر سول سوسائٹی اور میڈیا کے بارے میں رائے پائی جاتی ہے کہ یہ واچ گروپس کے طور پر اپنا کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ لیکن اگر یہ ہی گروپس ریاستی و حکومتی نظام کے ساتھ باہمی گٹھ جوڑ کر لیں، اپنے ذاتی تعلقات کو مضبوط بنا کر خود ان کی سیاست کا حصہ بن کر ان کے غلط کاموں کو تحفظ دینے کا کام شروع کر دیں تو پھر اصلاح کے امکانات اور زیادہ محدود ہو جاتے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی قومی سیاست کا بے لاگ و دیانت داری سے تجزیہ کریں اور بنیادی نوعیت کے وہ سوالات جو قومی سطح پر موجود ہیں ان کو تمام سیاسی اور غیر سیاسی فریقوں میں اٹھایا جائے اور پوچھا جائے کہ ان سوالوں کے جوابات کیا ہیں۔ پاکستان نے اگر آگے بڑھنا ہے تو اس کے ایک نئے وژن اور نئی سوچ سمیت نئی سیاسی اور معاشی حکمت عملیاں درکار ہیں۔ یہ ہی حکمت عملیاں ہمیں مثبت انداز میں آگے بڑھنے کا راستہ دے سکتی ہیں۔

سلمان عابد 

بشکریہ ایکسپریس نیوز

Post a Comment

0 Comments