Pakistan

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

ٹیکس اصلاحات ضروری کیوں؟

پاکستان کی دگرگوں معاشی حالت کے سبب ہر حکومت کو ریاست کے انتظامی معاملات چلانے کے لئے مقامی بینکوں اور عالمی مالیاتی اداروں سے قرض لینا پڑتا ہے۔ بعدازاں اس قرض کی ادائیگی کے لئے یا تو مزید قرض لینا پڑتا ہے یا پھر اس کے لئے پہلے سے ٹیکس ادا کرنے والے طبقات پر عائد مختلف ٹیکسز کی شرح میں مزید اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ یہ وہ دائرہ ہے جو گزرتے وقت کے ساتھ مزید سکڑتا جا رہا ہے اور اس میں پھنسے ہوئے ٹیکس دہندگان کو اتنا نچوڑا جا چکا ہے کہ اب ان میں مزید ٹیکس ادا کرنے کی سکت بھی ختم ہوتی جا رہی ہے۔ دوسری طرف ٹیکس نظام میں اصلاحات نہ ہونے کی وجہ سے کمزور طبقات بھی بری طرح متاثر ہو رہے ہیں کیونکہ حکومت کی طرف سے عائد کئے جانے والے بالواسط ٹیکسز کا سب سے زیادہ بوجھ اس طبقے کو اٹھانا پڑتا ہے جو کہ ملک میں جاری تاریخی مہنگائی کے باعث پہلے ہی مشکلات کا شکار ہے۔ ٹیکس کے امتیازی نظام سے عام آدمی کے متاثر ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سیلز ٹیکس کی شرح بیس، پچیس ہزار روپے ماہانہ کمانے والے مزدور کے لئے بھی وہی ہے جو کہ کسی صاحب ثروت کے لئے ہے۔ 

اس طرح ایک موٹرسائیکل سوار کو بھی پٹرول کی خریداری پر پیٹرولیم لیوی کی اتنی ہی شرح ادا کرنی پڑتی ہے جتنی کہ کسی لگژری گاڑی کے مالک سے وصول کی جاتی ہے۔ ہمارے ملک میں رائج ٹیکس نظام کے غیر منصفانہ ہونے کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہو گا کہ اس میں تین یا چار فیصد اضافی ادائیگی کرنے والے نان فائلر یعنی ٹیکس ادا نہ کرنے والے شہری کو ایک فائلر یعنی باقاعدگی سے ٹیکس ادا کرنے اور ٹیکس ریٹرن جمع کروانے والے شہری کے مقابلے میں زیادہ سہولیات یا آسانی حاصل ہے۔ نان فائلر شہری اس اضافی ادائیگی سے بچنے کے لئے بھی کئی راستے نکال لیتے ہیں اور اس طرح حکومت کے ریکارڈ کا حصہ نہ ہونے کی وجہ سے لاکھوں روپے کے اخراجات کرنے کے باوجود نہ صرف حکومت کو ٹیکس کی ادائیگی سے محفوظ رہتے ہیں بلکہ انہیں ٹیکس وصول کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی جانب سے کسی قسم کی پوچھ گچھ، آڈٹ یا مانیٹرنگ سے بھی نجات مل جاتی ہے۔ 

دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کے علاوہ دنیا بھر میں کہیں بھی نان فائلر کا تصور نہیں ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان میں دستاویزی معیشت کے مقابلے میں غیر دستاویزی معیشت یعنی بلیک مارکیٹ کا حجم کئی گنا زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طرف تو حکومت کے پاس عالمی مالیاتی اداروں اور دوست ممالک سے لئے گئے قرضوں پر سود کی ادائیگی کے لئے بھی زرمبادلہ دستیاب نہیں ہے اور دوسری طرف ایسے لوگ بھی موجود ہیں کہ جو ٹیکس نیٹ کا حصہ نہ ہونے کے باوجود شاہانہ زندگیاں گزار رہے ہیں اور کوئی ان سے پوچھنے والا نہیں ہے۔ یہ حالات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ حکومت ٹیکس اصلاحات کے نام پر ڈنگ ٹپاؤ اقدامات کرنے کی بجائے غیر روایتی اور سخت اصلاحات کرے کیونکہ اب اس کے بغیر پاکستان کی بقاناممکن ہے۔ اس حوالے سے حکومت کو چاہیے کہ سب سے پہلے تمام کرنسی نوٹ منسوخ کر دے تاکہ جن لوگوں نے گھروں یا نجی لاکرز میں اربوں روپے کا کالا دھن چھپا رکھا ہے اسے باہرنکلوایا جا سکے۔ 

اس سلسلے میں پالیسی بنا کر ایک تاریخ مقرر کی جا سکتی ہے کہ جو لوگ کرنسی نوٹ حکومت کو واپس کرنا چاہتے ہیں وہ بینکوں میں اکاؤنٹ کھلوائیں اور اپنی تمام رقوم بینکوں میں جمع کروائیں۔ اس دوران جو لوگ ٹیکس نیٹ سے باہر ہوں انہیں ٹیکس نمبر الاٹ کر کے ٹیکس دہندگان کی فہرست میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ اس سے جہاں سرمائے کی گردش میں فوری طور پر بے پناہ اضافہ ہو جائے گا وہیں غیر دستاویزی معیشت کے حجم میں بھی خاطر خواہ کمی لائی جا سکے گی۔ اسی طرح بیرون ملک سفر کرنے والوں یا ان کے اسپانسرز کے لئے ٹیکس دہندہ ہونا ضروری قرار دیا جائے۔ اس حوالے سے حکومت کو ڈیٹا حاصل کرنے میں بھی زیادہ مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا کیونکہ بیرون ملک سفر کرنے والے شہریوں کا تمام تر ڈیٹا پہلے ہی ایف آئی اے اور دیگر متعلقہ اداروں کے پاس موجود ہوتا ہے۔ اسی طرح رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کرنے والوں کے ساتھ ساتھ زراعت اور لائیو اسٹاک کے شعبے پر بھی ٹیکس کا نفاذ ضروری ہے۔ 

اس مسئلے کا ایک افسوسناک پہلو یہ ہے کہ دنیا بھر میں ٹیکس اصلاحات کا بنیادی نکتہ ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے لیکن پاکستان میں ٹیکس اصلاحات کے نام پر پہلے سے ٹیکس نیٹ میں شامل افراد اور اداروں پر ٹیکس میں اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ اس فرسودہ سوچ کو تبدیل کر کے ٹیکس نیٹ میں توسیع کو ٹیکس اصلاحات کا بنیادی نکتہ بنائے اس سے ٹیکس ریونیو میں خود بخود اضافہ ہو جائے گا۔ اس کے لئے فوری طور پر ہر شہری کے شناختی کارڈ نمبر کو ٹیکس نمبر قرار دیا جائے اور ایسے نان فائلرز کے خلاف فوری کریک ڈاؤن کیا جائے جو ماہانہ لاکھوں روپے کے اخراجات کرنے کے باوجود ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں۔ ہمیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ ملک کا دفاع تب ہی مضبوط ہو گا جب معیشت ٹھیک ہو گی۔ اگر ہمارے پاس مالی وسائل ہی نہیں ہوں گے تو ہم کسی بیرونی جارحیت کا مقابلہ کیسے کریں گے۔ 

اس لئے جو جہاں ہے اسے اپنی پرانی روش کو ترک کر کے اس ملک کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ ٹیکس نیٹ میں اضافے کے ساتھ ساتھ ٹیکس وصول کرنے والے اداروں میں رائج اس روایتی کلچر کو بھی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے جس میں ٹیکس دہندگان کے ساتھ ملک کی خدمت کرنے والوں جیسا برتاؤ کرنے کی بجائے ملزموں جیسا سلوک کیا جاتا ہے یا پھر انہیں بلا جواز نوٹس پر نوٹس بھیج کر ہراساں کیا جاتا ہے۔

چوہدری سلامت علی

بشکریہ روزنامہ جنگ

Post a Comment

0 Comments