Pakistan

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

پاکستانی مزید غریب ہو گئے

ورلڈ بینک کی حالیہ رپورٹ میں یہ انکشاف سامنے آیا ہے کہ پاکستان کی تقریباً 40 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے اور گزشتہ ایک سال کے دوران مزید 12.5 ملین افراد یعنی سوا کروڑ پاکستانی خط غربت سے نیچے چلے گئے ہیں، اس طرح پاکستان کی مجموعی آبادی میں سے 9 کروڑ پاکستانی خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ مذکورہ انکشاف نے مجھ سمیت ہر شخص کو حیرت زدہ اور تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ 2018 میں پاکستان میں غربت کم ہو کر 37.5 فیصد سے 34.3 فیصد پر آگئی تھی لیکن بعد ازاں یہ رجحان الٹا ہو گیا اور 2018 کے بعد غربت مسلسل اضافے سے 5 فیصد بڑھ کر آج 39.4 فیصد تک پہنچ گئی۔ ورلڈ بینک کے حالیہ انکشاف کے بعد پاکستان غربت کی شرح میں بھارت اور بنگلہ دیش سے بھی پیچھے رہ گیا ہے۔ بھارت میں غربت کی شرح جو 2015-16 میں 25 فیصد تھی، کم ہو کر 15 فیصد پر آگئی ہے اور اس طرح بھارتی حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے بھارت میں غربت میں 10 فیصد کمی ہوئی ہے۔ دوسری طرف بنگلہ دیش میں غربت کی شرح جو کچھ سال قبل 21 فیصد تھی، کم ہو کر 19 فیصد پر آگئی ہے اور اس طرح بنگلہ دیش میں بھی غربت میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔

واضح رہے کہ خط غربت کی پیمائش 3.6 ڈالر یومیہ آمدنی سے کی جاتی ہے۔ پاکستان میں جب روپے کی قدر نے ڈالر کے مقابلےمیں گرنا شروع کیا تو جو شخص 2018 میں یومیہ ایک ڈالر (105 روپے) کما رہا تھا، ڈالر مہنگا ہونے کی وجہ سے بے شک وہ 105 روپے ہی کما رہا ہے لیکن اس کی آمدنی ڈالر کی موجودہ قدر کے مقابلے میں بہت کم ہے اور وہ ورلڈ بینک کی مڈل کلاس کی تعریف پر پورا نہیں اترتا ورلڈ بینک نے پاکستان کی معاشی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے تجویز دی ہے کہ پاکستان غربت میں کمی کیلئے زراعت اور رئیل اسٹیٹ پر ٹیکس لگائے اور بے جا حکومتی اخراجات کم کرے۔ رپورٹ میں جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکس میں فوری طور پر 5 فیصد اضافہ کرنے اور اخراجات کو جی ڈی پی کے تقریباً 2.7 فیصد تک کم کرنے کے اقدامات کی بھی تجویز دی گئی ہے۔ یاد رہے کہ گزشتہ دنوں نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس کے موقع پر آئی ایم ایف کی ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا نے نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ سے ملاقات میں ٹیکس وصولی کو ترجیح دینے اور غریب عوام کا تحفظ یقینی بنانے کیلئے امیروں پر ٹیکس لگانے پر زور دیا تھا۔ 

ورلڈ بینک کے حالیہ انکشاف کی تصدیق سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ انسٹی ٹیوٹ اسلام آباد (SDPI) کی رپورٹ سے بھی ہوتی ہے جس کے مطابق گزشتہ چند سال میں پاکستان میں مڈل کلاس طبقے کی تعداد سکڑ کر آدھی رہ گئی ہے اور اس رجحان میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور عالمی مالیاتی اداروں کے مطابق مستقبل میں پاکستان میں شرح نمو مزید گرنے سے مڈل کلاس طبقہ مزید سکڑ کر رہ جائے گا جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار پاکستان کو ملنے والا حج کوٹہ بھی پورا استعمال نہ کیا جا سکا اور سعودی حکومت کو واپس کرنا پڑا۔ ورلڈ بینک کی حالیہ رپورٹ کی عکاسی اس امر سے بھی ہوتی ہے کہ ملک کے معاشی حالات، بیروزگاری اور مہنگائی سے تنگ آکر گزشتہ دو سال میں 18 لاکھ سے زائد افراد روزگار کی تلاش میں پاکستان چھوڑ کر بیرون ملک منتقل ہو چکے ہیں۔ خراب معاشی حالات کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اب بھکاری بھی بیرون ملک جانے کو ترجیح دے رہے ہیں جو عمرے کے ویزے پر سعودی عرب یا عراق جا کر بھکاری کا پیشہ اختیار کر رہے ہیں جس کی وجہ ملک میں بڑھتی ہوئی بیروزگاری اور مہنگائی ہی ہے۔

گزشتہ دنوں ان ممالک سے ڈی پورٹ ہونے والے 90 فیصد بھکاریوں کا تعلق پاکستان سے ہے جو یقیناً ایک لمحہ فکریہ اور ملک کی بدنامی کا سبب ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ پاکستان کا معاشی ماڈل اب غربت میں کمی نہیں لارہا بلکہ غربت میں مزید اضافے کا سبب بن رہا ہے اور پاکستان کی موجودہ پالیسی میں تبدیلی ناگزیر ہے۔ آج پاکستان ایسے موڑ پر کھڑا ہے جہاں اسے فیصلہ کرنا ہے کہ اسے اشرافیہ کی گرفت اور مخصوص حلقوں کے مفادات کے تحت کئے گئے پالیسی فیصلوں پر کاربند رہتے ہوئے خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والی 40 فیصد آبادی کے ساتھ پسماندہ رہنا ہے یا ان فیصلوں پر نظرثانی کر کے تابناک مستقبل کیلئے راستہ تبدیل کرنا ہے۔ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے عالمی مالیاتی ادارے بھی اسی بات پر زور دے رہے ہیں کہ حکومت اپنی اصلاح کرے اور امیروں پر ٹیکس لگا کر غریبوں پر خرچ کرے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا اور پاکستان میں مڈل کلاس کے سکڑنے کا رجحان جاری رہا تو وہ وقت زیادہ دور نہیں جب پاکستان میں مڈل کلاس طبقہ ختم ہوکر رہ جائے گا۔

مرزا اشتیاق بیگ

بشکریہ روزنامہ جنگ

Post a Comment

0 Comments