Pakistan

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

آئی پی پیز معاہدوں کی تجدید ملکی مفاد میں نہیں

اپنے گزشتہ کئی کالموں میں بار بار حکومت سے آئی پی پیز سے گئے معاہدوں اور ان سے بجلی خریدے بغیر کیپسٹی سرچارج کی مد میں ادائیگی پر گہری تشویش کا اظہار کر چکا ہوں۔ میں نے یہاں تک کہا ہے کہ یہ کینسر زدہ معاہدے پاکستان کے پاور سیکٹر اور معیشت کو ڈبو سکتے ہیں لہٰذا جلدازجلد پاور سیکٹر میں اصلاحات لا کر اِن معاہدوں کی تجدید پر نظرثانی کی جائے جو پاکستان کو تباہی کی طرف لے جا رہے ہیں۔ سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے بجلی کے حالیہ اجلاس میں اس بات کا انکشاف کیا گیا ہے کہ رواں مالی سال 2023-24 میں بجلی کے صارفین کیپسٹی سرچارج کی مد میں 1300 ارب روپے بجلی خریدے بغیر آئی پی پیز کو ادا کرینگے۔ کیپسٹی سرچارج میں اضافے کی وجوہات میں روپے کی قدر میں مسلسل کمی، درآمدی کوئلے، RLNG اور بینکوں کا شرح سود میں اضافہ شامل ہے۔ گزشتہ 20 سال میں حکومت آئی پی پیز کو کیپسٹی سرچارج کی مد میں 8000 ارب روپے ادا کر چکی ہے جبکہ صرف گزشتہ سال 2000 ارب روپے ادا کئے گئے جو فوج کے بجٹ 1800 ارب روپے سے بھی زیادہ ہیں۔ آج کیپسٹی سرچارج کا یہ کینسر بڑھکر صارفین کے بلوں کا آدھے سے زیادہ تک پہنچ چکا ہے۔ 2021-22ء میں پاور سیکٹر میں ٹرانسمیشن اینڈ ڈسٹری بیوشن کے نقصانات اور چوری بڑھکر 550 ارب روپے (17 فیصد) تک پہنچ چکی ہے جس میں پشاور الیکٹریسٹی کے صرف ایک سال میں 154 ارب روپے (37 فیصد) کے نقصانات شامل ہیں جس میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے جو پورے سسٹم کو تباہ کر رہا ہے۔ 

اسمارٹ گرڈ اور جدید ٹیکنالوجی سے ہم ترسیل کے نقصانات کو ایک سال میں 50 فیصد کم کر سکتے ہیں لیکن ہم IMF کے مطالبے پر ان نقصانات کو عام صارفین سے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کر کے وصول کر رہے ہیں جس سے بجلی کے نرخ ناقابل برداشت حد تک پہنچ چکے ہیں۔ میرے دوست اور فیصل آباد کے سابق ضلعی ناظم رانا زاہد توصیف نے مطالبہ کیا ہے کہ آئی پی پیز معاہدوں کی انکوائری اور بجلی خریدے بغیر کیپسٹی سرچارج کی ادائیگی پر ایک انکوائری کمیشن بنایا جائے اور ان کالی بھیڑوں کو، جو آئی پی پیز میں کک بیکس اور غیر حقیقی مراعات حاصل کر رہی ہیں، بے نقاب کیا جائے جس نے ملکی صنعت کو بھی خطے میں غیر مسابقتی بنا دیا ہے جس کا اندازہ ڈالر کی قیمت میں اضافے کے باوجود ملکی ایکسپورٹس میں مسلسل کمی سے لگایا جاسکتا ہے۔ بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی وجوہات میں آئی پی پیز کو بجلی خریدے بغیر کیپسٹی سرچارج کی ادائیگی، ٹرانسمیشن اینڈ ڈسٹری بیوشن نقصانات اور چوری، بجلی کے بلوں کی عدم ادائیگی، بلوں میں ٹیکسوں کی بھرمار، درآمدی کوئلے، فرنس آئل اور RLNG سے مہنگی بجلی کی پیداوار، فاٹا اور ٹیوب ویل کے صارفین کو سبسڈی اور واپڈا کے افسران کو مفت بجلی کی فراہمی شامل ہے۔ یہ سب خامیاں اور کوتاہیاں غریب صارفین سے بجلی کے بلوں کے ذریعے وصول کی جارہی ہیں جو سراسر ناانصافی ہے۔

2018ء میں بجلی کا اوسط یونٹ 11.72 روپے تھا جسکے بعد PTI دور حکومت میں بجلی کے نرخ میں 60 فیصد اضافہ کیا گیا اور بجلی فی یونٹ تقریباً 18 روپے ہوگئی۔ PDM حکومت نے گزشتہ سوا سال میں 4 مرتبہ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیا جس سے بجلی کی قیمت 50 روپے فی یونٹ سے بھی بڑھ گئی ہے جبکہ اسکی اصل لاگت 30 روپے سے بھی کم ہے۔ بجلی کے بلوں میں 14 ٹیکسز وصول کئے جاتے ہیں جن میں الیکٹریسٹی ڈیوٹی، جنرل سیلز ٹیکس، انکم ٹیکس، فیول پرائز ایڈجسٹمنٹ (FPA)، فنانشل کاسٹ سرچارج (FCS)، میٹر رینٹ، ریڈیو، ٹی وی ٹیکس، ایکسٹرا ٹیکس اور دیگر ٹیکسز شامل ہیں۔ بجلی کے بلوں پر سامنے آنے والا عوامی ردعمل فطری ہے۔ حکومت IMF کی منظوری کے بغیر عوام کو بجلی کے بلوں میں کوئی ریلیف نہیں دے سکتی۔ ملک میں معاشی اور صنعتی سرگرمیوں میں سست رفتاری کی وجہ سے بجلی کی طلب میں کمی آئی ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ملک میں معاشی اور صنعتی سرگرمیاں تیز ہوں اور آئی پی پیز کو بجلی خریدے بغیر ادائیگیاں کرنے کے بجائے بجلی خرید کر انہیں ادائیگیاں کی جائیں۔ حکومت نے 1995، 2002، 2012، 2015 اور 2020 کی پاور پالیسی کے تحت 42 آئی پی پیز سے 15663 میگاواٹ بجلی کے معاہدے کئے ہوئے ہیں جن میں سے زیادہ تر کی معیاد اس سال یا آئندہ سال ختم ہونیوالی ہے۔ 

سابق مشیر پیٹرولیم ندیم بابر نے حکومت سے سفارش کی تھی کہ آئی پی پیز معاہدوں کی پرانی شرائط پر تجدید نہ کی جائے بلکہ نئے معاہدوں میں ڈالر میں منافع اور کیپسٹی سرچارج کے بجائے صرف خریدی گئی بجلی کی ادائیگی Competative Bidding کے ذریعے سب سے کم نرخ والے آئی پی پیز سے بجلی خریدی جائے۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ زیادہ تر آئی پی پیز کی پلانٹ مشینری میں اوور انوائسنگ کی گئی ہے اور 10 سال میں 60 ارب روپے کی سرمایہ کاری پر 400 ارب منافع لے چکے ہیں اور اب یہ پلانٹ مفت ہو گئے ہیں اور ان سے بجلی کی پیداواری لاگت نہایت کم ہو گئی ہے۔ نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے آئی پی پیز معاہدوں کو غیر منصفانہ کہا ہے جبکہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے آئی پی پیز کو 10 سال میں کی گئی ادائیگیوں کی تفصیلات طلب کر لی ہیں۔ بجلی کی قیمتیں بڑھانے پر گزشتہ ایک ہفتے میں ایک درجن سے زائد افراد خود کشی کر چکے ہیں اور مہنگائی، غربت اور بیروزگاری کے ستائے لوگ سول نافر مانی کی طرف جارہے ہیں۔ نگراں حکومت کو چاہئے کہ آئی پی پیز معاہدوں کی پرانی شرائط پر تجدید نہ کی جائے۔ اسکے علاوہ درآمدی کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں کو تھرکول پر منتقل کیا جائے تاکہ مقامی کوئلے سے سستی بجلی پیدا کی جاسکے۔ یاد رکھیں کہ اس بار مہنگائی اور اضافی بلوں کا ڈسا مڈل کلاس طبقہ ہی الیکشن کا فیصلہ کریگا کیونکہ اسکے پاس اب کھونے کیلئے کچھ نہیں بچا۔

ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ

بشکریہ روزنامہ جنگ

Post a Comment

0 Comments