عمران خان نے بہت دیر کر دی۔ چیئرمین تحریک انصاف سے اٹک جیل میں ملاقات کرنے والی اُن کی لیگل ٹیم کے ایک اہم ممبر نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ عمران خان کا یہ پیغام ہے کہ وہ تمام سیاسی جماعتوں اور اداروں کے ساتھ بات چیت کرنے کیلئے تیار ہیں۔ عمران خان نے کسی بھی قسم کی ڈیل کی تردید کی اور یہ بھی کہا کہ وہ اپنے رستے سے نہیں ہٹیں گے۔ دوسری طرف نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ 9 مئی کو جو ہوا وہ بغاوت تھی اور اس کا ہدف موجودہ آرمی چیف اور اُن کی ٹیم تھی۔ اُنہوں نے واضح طور مئی 9 کی سازش میں شامل کسی بھی فرد کو کسی بھی قسم کی رعایت دئیے جانے کے تاثر کو رد کرتے ہوئے کہا کہ اگر ملکی قوانین کو پامال کرنے اور تشدد کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی نہ ہوئی تو ہم اس معاملہ میں فریق نظر آئیں گے۔ نگراں وزیراعظم کا یہ بیان عمران خان اور تحریک انصاف کیلئے پیغام ہے کہ نہ حکومت نہ فوج 9 مئی کو بھولے ہیں اور نہ ہی بھولیں گے۔ یعنی عمران خان اور تحریک انصاف کے لیے مذاکرات کے دروازے بند ہو چکے، 9مئی کو وہ ریڈلائن کراس کی گئی جس کے بعد مذاکرات ہونا ممکن نہیں۔
چند ہفتے قبل تک تحریک انصاف پی ڈی ایم حکومت کے جانے کی دعائیں کرتی تھی اور اس امید سے تھی کہ نگراں حکومت کے آنے کے بعد تحریک انصاف کے لیے حالات بہترہوں گے، سختیاں کم ہوں گی، پکڑ دھکڑ بھی تھم جائیگی اور تحریک انصاف کے لیے الیکشن میں جانے کا ماحول بہتر ہو جائے گا۔ میں اُس وقت بھی کہتا تھا کہ مجھے تحریک انصاف کی امیدیں پوری ہوتی نظر نہیں آتیں بلکہ سختیاں مزید بڑھ سکتی ہیں کم نہیں ہو سکتیں، بالکل ویسا ہی ہوا۔ تحریک انصاف اور اس کے رہنما 9 مئی کے واقعات کی سنگینی کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ سمجھتے تھے کہ چند ہفتوں یا مہینوں میں ادارہ اور لوگ اس واقعے کو بھول جائیں گے اور یہ بھی کہ تحریک انصاف کی مقبولیت کے وجہ سے عمران خان کو مائنس کرنا ممکن نہیں ہو گا لیکن سب کچھ اُس کے برعکس ہو رہا ہے جو پی ٹی آئی سوچ رہی تھی۔ عمران خان جیل میں ہیں، توشہ خان کیس کی سزا تو کالعدم ہو چکی لیکن وہ الیکشن نہیں لڑ سکتے۔ اس کیس میں ضمانت مل گئی لیکن اٹک جیل سے اُن کا نکلنا ابھی ممکن نظر نہیں آتا۔
سائفر کیس میں بھی اُنہیں چند ماہ میں کوئی بڑی سزا مل سکتی ہے۔ 9 مئی کے علاوہ کچھ اور مقدمات بھی خان صاحب کا پیچھا کر رہے ہیں۔ ایسے میں نہ کوئی سیاسی جماعت عمران خان سے بات چیت کرے گی، نہ ہی حکومت اور ادارے مذاکرات کے لیے تیار ہوں گے۔ کاش عمران خان نے ماضی میں اپنے سیاسی مخالفین سے بات چیت کی ہوتی، اُن سے ہاتھ ملانے سے انکاری نہ ہوئے ہوتے۔ کاش عمران خان نے اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد فوج اور فوجی قیادت کو اپنے نشانہ پر نہ رکھا ہوتا، اُن کو بدنام نہ کیا ہوتا، اُنہیں جانور، میر جعفر اور میر صادق نہ کہا ہوتا، 9 مئی کا واقعہ نہ ہوا ہوتا۔ اب جو عمران خان مانگ رہے ہیں وہ اُن کے سیاسی مخالف، حکومت اور اسٹیبلشمنٹ دینے کے لیے تیار نہیں۔ عمران خان نے بہت دیر کر دی۔
0 Comments