Pakistan

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

جمہوریت کی پسپائی؟

امریکی ادیب ، مورخ اور فلسفی ول ڈیورانٹ اپنی مشہور زمانہ کتاب ’’ نشاط فلسفہ ‘‘ کے باب ’’ کیا جمہوریت ناکام ہو گئی ہے؟‘‘ میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ’’ اس ملک میں جہاں حکمران اقلیت عوامی حمایت ( یعنی جمہوریت ) کا لبادہ اوڑھتی ہے ، وہاں ایک خاص طبقہ ایسا پیدا ہوتا ہے، جس کا کام حکومت کرنا نہیں بلکہ اس منصوبے کیلئے لوگوں کی منظوری حاصل کرنا ہوتا ہے، جو حکمران اقلیت کو پسند ہو۔ ہم اس خاص طبقہ کو سیاست دان کہتے ہیں۔ سیاستدان جماعتوں میں بٹ جاتے ہیں اور لوگوں کو ایسے گروہوں میں تقسیم کر دیتے ہیں، جو ایک دوسرے کے دشمن ہوتے ہیں ۔‘‘ ہمارے ملک میں سیاست دان جو کچھ کرتے ہیں یا اس وقت جو کچھ کر رہے ہیں، وہ ول ڈیورانٹ کی سیاست دان کی تعریف پر پورا اترتے ہیں۔ یوں محسوس ہو رہا ہے کہ پتلی تماشا ہو رہا ہے۔ سیاست دان اس منصوبے کیلئے لوگوں کی منظوری حاصل کرنے میں لگے ہوئے ہیں، جو حکمران اقلیت کو پسند ہو گا۔ ہمارے سیاست دان خود یہ اعتراف کرتے ہیں کہ اس ملک کی حقیقی حکمران اقلیت اسٹیبلشمنٹ ہے، جو زیادہ تر فوج پر مشتمل ہے ۔ 

عمران خان سمیت سارے سیاسی قائدین یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ انہیں کبھی مکمل اقتدار نہیں ملا اور ان کی حکومتیں بے اختیار رہیں۔ عمران خان سے پہلے تمام سیاست دان کہتے تھے کہ قومی احتساب بیورو ( نیب ) نامی ادارہ آزاد نہیں ہے اور احتساب کے نام پر اسے سیاست کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اب تو عمران خان بھی یہی بات کہہ رہے ہیں۔ سارے سیاست دان یہ بھی مانتے ہیں کہ عام انتخابات کبھی شفاف نہیں ہوتے اور اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے بغیر کوئی جماعت انتخابات میں کامیابی حاصل نہیں کر سکتی اور نہ ہی اقتدار میں آسکتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ سارا تماشا کیوں ہو رہا ہے اور سیاسی پولرائزیشن کو مزید گہرا کر کے لوگوں کو کیوں ایک دوسرے کا دشمن بنایا جا رہا ہے اور پاکستانی معاشرے کو خوف ناک تقسیم در تقسیم کا شکار کیوں کیا جا رہا ہے۔ ویسے تو ہماری ملکی تاریخ میں یہ کم ہی ہوا ہو گا کہ سیاست دان اپنے حقیقی ایجنڈے پر چلے ہوں یا اس پر قائم رہ سکے ہوں۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں۔ 

عمران خان کی حکومت کو تحریک عدم اعتماد کے ’’ آئینی طریقے ‘‘ سے ہٹانے کے اقدام سے لے کر پنجاب حکومت کو تحلیل کرنے یا نہ کرنے کی کشمکش تک کا جائزہ لے لیتے ہیں۔ عمران خان کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کیا تھی ؟ بس چھوٹی سیاسی جماعتوں کی طرف سے محض سیاسی کیمپ کی تبدیلی تھی۔ یہی چھوٹی جماعتیں پہلے تحریک انصاف کی اتحادی تھیں، جو بعد میں پی ڈی ایم کی اتحادی بن گئیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تحریک عدم اعتماد سے پہلے تحریک انصاف کی حکومت بھی حکمران اقلیت کے منصوبے کا حصہ تھی اور اس حکومت کا خاتمہ بھی اسی منصوبے کا حصہ تھا۔ پی ڈی ایم کو جب محسوس ہوا کہ یہ منصوبہ اس کے مفادات سے میل کھاتا ہے تو اس نے اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کیلئے سرگرمی دکھائی اور اب تحریک انصاف اس کوشش میں ہے کہ حقیقی حکمران اسٹیبلشمنٹ اسے اپنے اگلے منصوبے کا حصہ بنائے۔ دونوں فریقوں کی عوامی سرگرمیاں اور سیاسی تضادات ان منصوبوں کی منظوری حاصل کرنے کیلئے ہوتے ہیں۔ 

جب عمران خان نے دو ماہ قبل 26 نومبر کو اپنے لانگ مارچ کے اختتام پر جلسہ عام میں یہ اعلان کیا تھا کہ ان کی جماعت کے لوگ موجودہ اسمبلیوں سے استعفیٰ دیدیں گے اور اس سسٹم کا حصہ نہیں رہیں گے تو اس وقت اس اعلان کیلئے ان کا ہوم ورک نہیں تھا۔ نہ صرف ان کے اتحادی بلکہ ان کے اپنے ارکان اسمبلی بھی اس صورتحال کیلئے تیار نہیں تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی سیاسی چال اب انکی اپنی نہیں رہی۔ اب حکمران اقلیت کیلئے موقع ہے کہ وہ سیاسی تیاری کے بغیر چلی جانیوالی اس چال کو اپنے کسی منصوبے کا حصہ بنا لے۔ عمران خان یہ بھی جانتے ہیں کہ انکے زیادہ تر ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اور سینیٹ انکے اپنے نہیں ہیں بلکہ انکے پاس بھیجے گئے تھے۔ وہ اپنے استعفوں کے حوالے سے اتنے بڑے فیصلے پر عمران خان کی ڈکٹیشن کیوں لینگے ۔ وہ تو مستقبل میں اپنی سیاسی ایڈجسٹمنٹ دیکھیں گے ۔ یہ سمجھنا دشوار نہیں کہ اب سارا کھیل بظاہر چوہدری پرویز الہٰی کے ہاتھ میں کیوں چلا گیا ہے، جن کی پنجاب اسمبلی میں صرف دس نشستیں ہیں۔ 

انہوں نے ایک طرف عمران خان کو لکھ کر دیدیا ہے کہ وہ پنجاب اسمبلی تحلیل کر دیں گے جبکہ عدالت کو لکھ کر دیدیا کہ وہ پنجاب اسمبلی تحلیل نہیں کرینگے۔ پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کی قیادت کی طرف سے پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کو بچانے کیلئے جو کوششیں ہو رہی ہیں، وہ بظاہر ان کا اپنا سیاسی ایجنڈا ہیں لیکن اس ایجنڈے کی کامیابی اور ناکامی کا انحصار صرف ان کی اپنی کوششوں پر نہیں ہے۔ گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن کی طرف سے وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا معاملہ عدالت میں پہنچ گیا ہے اور عدالت نے چوہدری پرویز الٰہی کو عبوری ریلیف دیدیا ہے۔ اس سے پہلے بھی کئی ایسے معاملات یا تنازعات عدالتوں میں گئے، جو پارلیمنٹ یا اسمبلیوں میں طے ہو سکتے تھے لیکن سیاست دانوں نے ان فورمز پر ان معاملات اور تنازعات کو حل نہیں کیا اور پارلیمنٹ کی بالادستی اور جمہوریت کو خطرے میں ڈالا۔ 

اب بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ تمام سیاست دان اس ناقابل فخر حقیقت سے آگاہ ہیں کہ عدالتوں میں کس طرح فیصلے ہوتے ہیں۔ اب جو کچھ ہو رہا ہے، اس کا نتیجہ کیا نکلے گا، اسکے بارے میں کوئی پیش گوئی نہیں کر سکتا ۔ منصوبے کا بلیو پرنٹ حقیقی حکمرانوں کے پاس ہو گا ۔ سیاستدان کرپشن کے کیسز، آڈیوز اور وڈیوز لیکس میں اپنی ساکھ خراب کرتے رہیں گے اور اپنے ایجنڈے پر نہیں آسکیں گے ۔ سیاسی قوتیں اور سیاست بدنام ( Discredit ) ہو رہی ہے ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی کتاب مفاہمت میں ایک جگہ لکھا ہے کہ ’’ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد ہماری قوم کے جمہوری ریکارڈ کا مطالعہ آگے بڑھتے ہوئے قدموں اور پیچھے کو دھکیل دینے والے واقعات کی ایک اداس کن داستان ہے ‘‘ ۔ یہ حقیقت ہے کہ موجودہ واقعات جمہوریت کو پیش قدمی کی بجائے پسپائی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ بہتر یہی ہے کہ سیاست دان مذاکرات کریں اور انتخابات کب کرانا ہیں، اس کا فیصلہ خود کریں۔

نفیس صدیقی

بشکریہ روزنامہ جنگ

Post a Comment

0 Comments