Pakistan

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

بااثر اور عظیم ثالث : ایردوان

صدر ایردوان اس وقت واحد عالمی رہنما ہیں جن پر دنیا کی نگاہیں مرکوز ہیں اس کی سب سے بڑی وجہ روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ اور روس پر عالمی سطح پر لگائی جانے والی پابندیاں ہیں لیکن ایردوان ایک ایسے رہنما کے طور پر ابھر ے ہیں جن کے روس کے صدر ولادیمیر پوٹن اور یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی سے بڑے گہرے اور دوستانہ مراسم ہیں۔ مغربی ممالک جو روس پر پابندیاں لگانے کے بعد خود انرجی اور اناج کے بحران سے دوچار ہیں اس بحران سے نکلنےکی اپنے تئیں کوششیں کر چکے ہیں لیکن تمام کوششیں ناکام ثابت ہوئی ہیں جبکہ صدر ایردوان نے مغربی ممالک ہی کی درخواست پر اپنے مضبوط مراسم استعمال کرتے ہوئے روس کو یوکرین کے اناج کو ترکی کے راستے بیرونی منڈیوں تک پہنچانے میں کامیابی حاصل کی ہے، ترکیہ کے اس اقدام سے ایک طرف دنیا نے اور خاص طور پر افریقی ممالک نے سکھ کا سانس لیا تو دوسری طرف ترکیہ نے اس صورتِ حال کو اپنی اقتصادی بہتری کیلئے استعمال کرنے میں بھی کامیابی حاصل کی ہے۔

انہوں نے اس سے قبل روس سے قریبی تعلقات ہونے کے باوجود بڑی تعداد میں اپنے مسلح ڈرونز یوکرین کو فروخت کر کے نہ صرف یوکرین کےعوام کے دل جیت لئے بلکہ مغربی ممالک نے بھی ایردوان کے اس اقدام کی حمایت کی لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ترکیہ کے اس اقدام کے باوجود روس ترکیہ سے اپنے گہرے تعلقات کو جاری رکھے ہوئے ہے اور اپنے اناج اور گیس کو اب ترکیہ کے راستے عالمی منڈیوں تک پہنچانے کیلئے ایردوان کی ثالثی کا منتظر ہے کیونکہ اس کے خیال میں ایردوان سے بہتر کوئی بھی رہنما ثالثی کا کردار ادا نہیں کر سکتا۔ ایردوان کی کامیاب حکمتِ عملی نے نہ صر ف لیبیا، مصر، عرب ممالک بلکہ روس اور فرانس کو بھی اس قضیے سے اس طریقے سے نکال باہر کیا جیسے مکھن میں سے بال نکالا جاتا ہے اوریوں لیبیا کے عوام کو اپنا گرویدہ بنا لیا اور اب طویل عرصے بعد شام نے ترکیہ سے اپنے تعلقات کو نئے سرے سے استوار کرنے کے لیے (روس کی کوششوں سے ) ترک حکام سے رابطہ قائم کئے ہیں، دونوں ممالک کی خفیہ سروس کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے اور جلد ہی ان مذاکرات کے مثبت نتائج کی توقع کی جا رہی ہے۔

ترکیہ نیٹو کا واحد ملک ہے جس نے روس سےبڑے قریبی تعلقات قائم کر رکھے ہیں ، نیٹو کے رکن ممالک اس وجہ سے ترکیہ کو اکثر و بیشتر ہدفِ تنقید بھی بناتے رہے ہیں بلکہ امریکہ نے تو روس کی جانب سے فراہم کئے جانے والے ایس - 400 میزائلوں کی فروخت کے بعد ترکیہ کو نہ صرف ایف-16 طیاروں کی فروخت کو روک دیا بلکہ مشترکہ طور پر تیار کئے جانے والے ایف-35 طیاروں کے پروجیکٹ سے بھی اسے یک طرفہ طور پر نکال باہر کیا لیکن روس- یوکرین جنگ کے بعد امریکہ نے مجبور ہو کر ترکیہ پر ایف 16 طیاروں کی فروخت سے متعلق مذاکرات شروع کرنے کی ہامی بھر لی جو ترکیہ کیلئے ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔ اگرچہ یونان اور متعدد یورپی ممالک ترکیہ کو نیٹو سےخارج کروانے کی کوششوں میں مصروف ہیں لیکن اس اتحاد کا بانی امریکہ اچھی طرح جانتا ہے نیٹو ترکیہ کے بغیر ایک ’’نمائشی اتحاد‘‘ ہے اسلئے امریکہ کبھی ترکیہ کو نیٹو سے خارج کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا ۔ 

ترکیہ اگرچہ شنگھائی تعاون تنظیم کا رکن نہیں لیکن ازبکستان نے چین اور روس کی خواہش پر ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوان کو خصوصی طور پر اس سربراہی اجلاس میں مدعو کرتے ہوئے اس ملک کی اہمیت کو تسلیم کر لیا جبکہ اس کانفرنس میں نیٹو کے کسی دیگر ملک کو مدعو نہیں کیا گیا۔ ترکیہ نے اس کانفرنس میں شرکت کرنے کے بعد تنظیم کی رکنیت حاصل کرنےکیلئے بھی غور کرنا شروع کر دیا ہے۔ جدید جمہوری دنیا میں کئی ایک ممالک کے رہنما ایسے بھی ہیں جو اگرچہ طویل عرصے سے برسر اقتدار ہیں لیکن بد قسمتی سے ان تمام ممالک میں سے کسی ایک میں بھی مغربی معیار کے جمہوری نظام پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا، اس لئے ان ممالک کے رہنماؤں کا صدر ایردوان سے تقابلی جائزہ ممکن نہیں یعنی چین کا نظام اور روس کا نظام ترکیہ سے کافی حد تک مختلف ہے جبکہ مغرب میں ایسا کوئی رہنما موجود نہیں جسے صدر ایردوان کی طرح طویل عرصے سے عوام کی حمایت حاصل ہو۔ 

مغرب میں جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل اگرچہ طویل عرصے تک عوام کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب رہیں لیکن وہ بھی عوامی حمایت اور کامیابی کی شرح کے لحاظ سے صدر ایردوان کی مقبولیت اور کامیابیوں کے معیار سے بہت پیچھے رہیں۔ صدر ایردوان واحد عالمی رہنما ہیں جنہوں نے اقوام متحدہ میں پانچ عالمی قوتوں، جنہوں نے ویٹو پاور حاصل کر رکھی ہے، کے خلاف علمِ بغاوت بلند کر رکھا ہے اور وہ جنرل اسمبلی میں خطاب اور بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر واشگاف الفاظ میں ’’دنیا پانچ سے عظیم تر ہے‘‘ کا صرف نعرہ ہی نہیں لگا رہے بلکہ اس کیلئے انہوں نے باقاعدہ مہم بھی شروع کر رکھی ہے۔ صدر ایردوان طویل عرصے تک ترکیہ میں برسر اقتدار رہنے والے اور جمہوریہ کے بانی غازی مصطفیٰ کمال کو اپنے پیچھے چھوڑنے والے پہلے رہنما بن گئے ہیں۔ غازی مصطفیٰ کمال 5492 دن برسر اقتدار رہے تھے جبکہ ایردوان 9 مارچ 2003 سے مسلسل اقتدار میں ہیں۔ طویل عرصے اقتدار میں رہنے والی شخصیت کا عموماًیہ المیہ ہوتا ہے کہ عوام اس سے اُکتا جاتے ہیں لیکن صدر ایردوان کی یہ خوش قسمتی ہے کہ وہ اب تک عوام میں مقبول ہیں اور یہ مقبولیت کب تک برقرار رہتی ہے ؟ یہ 2023ء کے صدارتی انتخابات ہی بتا سکیں گے۔

پاکستانیوں کے نقطہ نظر سے بھی ایردوان بڑے کامیاب لیڈر تصور کئے جاتے ہیں کہ انہوں نے جس جرات مندانہ طریقے سے عالمی پلیٹ فارمز پر مسئلہ کشمیر کی حمایت کی اور پاکستان میں ماضی میں اور موجود دور میں قدرتی آفات میں مدد کی ہے اس کی دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی۔

ڈاکٹر فر قان حمید

بشکریہ روزنامہ جنگ

Post a Comment

0 Comments