Pakistan

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

مسئلے حل ہو گئے تو ہمارا کیا ہو گا؟

اکیسویں صدی میں جب جدید ترین شعبے بھی قبیلوں کی طرح ایک دوسرے کے خلاف تلواریں سونت کر کھڑے ہو جائیں اور ملکی مسائل ایک سسٹم (نظام) کے تحت از خود حل کرنے کی بجائے ہر مسئلے پر اپنے بازوئوں اور زبان کی قوت کے مظاہرے کیے جائیں تو یہ راستے انتشار کی طرف ہی لے جاتے ہیں۔ معاشرے مستحکم نہیں ہوتے۔ بہترین اندازِ حکمرانی اور مہذب قوموں کی منزل مقصود ایک ایسے نظام کا قیام ہوتا ہے جس میں عمومی مسائل اپنے طور پر ہی سلجھتے رہتے ہیں لیکن ہمیں،عوام اور حکمرانوں سب کو اپنے مسائل اتنے خوبصورت اور محبوب لگتے ہیں کہ ہم انہیں برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ حکمران بھی خائف رہتے ہیں۔  اپوزیشن بھی، میڈیا بھی اور ہمارے بقراط بھی کہ اگر یہ مسئلے حل ہو گئے تو ہمارا کیا ہو گا۔ ہماری کیا ضرورت رہے گی؟ اس لئے لاشعوری طور پر ہم سب ایک سسٹم کے قیام کے خلاف ہیں۔ اپنے گھر میں، دفتر میں، محلے میں، شہر میں ہم کہیں بھی یہ سسٹم قائم نہیں کرنا چاہتے۔

وزیر اعظم کا عوام سے براہ راست خطاب، فون سننا، آن لائن کھلی کچہری بظاہر اچھی کوشش لگتی ہے لیکن کیا اس سے کوئی سسٹم قائم کرنے میں مدد مل رہی ہے؟ کیا یہ وزیر اعظم کے اعلیٰ ترین عہدے کے انتہائی قیمتی وقت کا درست مصرف ہے؟ کتنے گھنٹے اس کے لئے وقف کر دیے جاتے ہیں؟ کابینہ کے اکثر ارکان بھی ساتھ بٹھا لئے جاتے ہیں۔ اس سے سسٹم قائم ہونے کی بجائے سسٹم کے مطلوبہ مراحل نظر انداز کیے جارہے ہیں۔ متعلقہ محکموں کے ذمہ داروں کی اتھارٹی متاثر ہو رہی ہے۔ وزیر اعظم کی اصل کوشش تو ایک ایس ایچ او، ایس ڈی ایم سے لے کر چیف سیکرٹری اور آئی جی کی اتھارٹی مسلّم کروانا بھی اپنی ذمہ داریوں کو پورے اعتماد سے ادا کروانا ہونی چاہئے کہ ہر مسئلہ اپنے پہلے سرکاری مرحلے پر ہی از خود حل ہو جائے۔ ملکی مسائل کسی سے چھپے ہوئے نہیں ہیں۔ سسٹم کو سب سے زیادہ پامال اور ناکارہ ایم این اے، ایم پی اے، سینئر صوبائی وفاقی وزرا کرتے ہیں۔ حکمران اور اپوزیشن پارٹیوں کے لیڈر، عہدیدار اور کارکن بھی اسے بے اثر کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک کو یہ عادت ڈال دی گئی ہے کہ اس کا کام سسٹم سے بالا بالا ہو جائے۔ 

جمہوری سسٹم کو تہس نہس کرنے کے لئے بلدیاتی اداروں کو بے اختیار اور بے عمل کر دیا گیا ہے۔ فوجی آمریتیں عام انتخابات ملتوی اور موخر کرتی ہیں۔ بالکل اسی طرح سیاسی آمریتیں بلدیاتی انتخابات موخر کرتی رہتی ہیں۔ بلدیاتی ادارے جمہوری سسٹم کی پہلی سیڑھی ہیں۔ 70 فی صد مسائل کا حل ان کی ذمہ داری ہے۔ جب ضلعی شہری حکومتیں وجود ہی نہیں رکھتیں یا ان کے پاس اختیار نہیں ہے تو ملک کے بنیادی مسائل، صفائی، مقامی محصولات کی وصولی، گاڑیوں، بسوں، موٹر سائیکلوں کے ٹیکس، گلی کوچوں، سڑکوں کی دیکھ بھال ہو ہی نہیں سکتی۔ یہ کسی بھی ملکی سسٹم کی پہلی اینٹ ہے۔
مولانا رومی یاد آتے ہیں:
خشت اوّل چوں نہد معمار کج
تا ثریا می رود دیوار کج
اگر معمار پہلی اینٹ ٹیڑھی رکھے گا تو آسمانی بلندیوں تک دیوار ٹیڑھی ہی جائے گی۔ پاکستان کے سنگین مسائل میں مسئلہ کشمیر اوّلین ہے۔ ہم 74 سال سے اس مسئلے کے عشق میں مبتلا ہیں۔ مسئلے کے حل کے لئے وقت کا تعین کیا جاتا ہے۔ منزل مقرر کی جاتی ہے۔ راستے طے کیے جاتے ہیں۔ 

رسمی تقریریں، رسمی بیانات، ریلیاں، کشمیر کمیٹیاں نہیں۔ اگر مسئلہ ایک طریقے سے حل نہیں ہوتا تو متبادل راستے کیا ہو سکتے ہیں؟ جتنے اربوں ڈالر کشمیر کمیٹیوں، بین الاقوامی سفروں، ہوٹلوں میں قیام پر خرچ کیے گے۔ وہ کشمیری مجاہدین کو دے دیے جاتے تو یہ منزل یقیناً مل جاتی۔ مگر ہمیں کشمیر سے نہیں مسئلہ کشمیر سے پیار ہے۔ اس پر فخر کیا جاتا ہے کہ ہم نے اقوام متحدہ میں کشمیر کے لئے آواز اٹھائی حالانکہ اقوام متحدہ تو سب سے بے اثر ادارہ ہے۔ امیر ملکوں کی عشرت گاہ۔ پانی کا مسئلہ سنگین ہے۔ دریائوں نہروں کی صفائی نہیں کریں گے۔ بڑے چھوٹے ڈیم نہیں بنائیں گے تو پانی سب صوبوں کو ان کی ضرورت کے مطابق کیسے ملے گا؟ مل جل کر ارکان اسمبلی اپنی تنخواہیں مراعات بڑھالیتے ہیں۔ پانی سب کا مسئلہ ہے اس کے حل کے لئے مل جل کر کیوں کام نہیں ہو سکتا۔ ایک سسٹم کی با اختیاری کا تقاضا یہ بھی ہے کہ من پسند چیف سیکرٹری، سیکرٹری، انسپکٹر جنرل پولیس نہ لگائے جائیں گے۔ 

سنیارٹی کے اعتبار سے جس کا حق ہے اسے دیا جائے۔ اگر سیاسی مداخلت نہ ہو تو یہ آفیسر اپنی ذمہ داریاں خود بطریق احسن ادا کر سکتے ہیں۔ برٹش انڈیا جس میں سے آج بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش، برما، متحدہ عرب امارات، یمن، سنگا پور کے الگ الگ ملک بن گئے ہیں۔ اتنے بڑے رقبے کو برطانیہ اپنے فوجی اور سول صرف 20 ہزار گوروں کے ذریعے چلا رہا تھا۔ بنیادی مسائل کبھی نظر انداز نہیں ہوتے تھے۔ انگریز کے دَور کو سب یاد کرتے ہیں۔ اب وفاقی ملازمین کئی لاکھ ہیں۔ اسی طرح صوبوں میں لاکھوں ملازمین اور سینکڑوں افسر ہیں۔ اربوں روپے کی تنخواہیں لیکن عوام بنیادی مسائل کے حل کیلئے سرگرداں۔ مہنگائی سب سے پریشان کن۔ یہ بنیادی طور پر میونسپل کمیٹیوں کی ذمہ داری ہے لیکن وہ تو ہیں ہی نہیں۔ محکمے اپنا اپنا بنیادی فرض تو ادا نہیں کر رہے لیکن ہائوسنگ اسکیموں میں سب مصروف ہو گئے ہیں۔ اور تعمیرات جن کمپنیوں کا ذریعۂ معاش تھا، وہ دب کر رہ گئی ہیں۔

سرکاری ہائوسنگ اسکیموں کو تو کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی۔ ان کے مراحل بالا بالا طے ہوتے رہتے ہیں۔ انگریز نے سردی گرمی کی ابتدا، اختتام کی تاریخیں، سرکاری دفتروں، اسکولوں کے اوقات معین کر رکھے تھے۔ اسی طرح شہری نالوں، ندیوں، دریائوں کی صفائی کی تاریخیں بھی اور وقت پر کام ہو جاتا تھا۔ زخمی اسپتال پہنچانا، لاشیں اٹھانا میونسپلٹی کی ذمہ داری تھی۔ اس کے لئے گاڑیاں ایمبولینسیں ہوتی تھیں۔ اب ایدھی اور کئی دوسری تنظیمیں یہ ذمہ داری ادا کر رہی ہیں۔ مگر اس کا بجٹ ویسے ہی منظور ہوتا ہے۔ تعلیم پرائیویٹ شعبے میں زیادہ تر چلی گئی ہے۔ مگر بجٹ صوبائی حکومت اب بھی رکھتی ہے۔ کام نہیں مگر دام وصول کیے جاتے ہیں۔ وزیر اعظم عوام کے درمیان۔ اور اس قسم کے تفریحی پروگرام منعقد کرنے کی بجائے۔ وزیر اعظم اور موجودہ حکمران پارٹی ملک میں ایک سسٹم بنانے کے لئے ایک مہینہ مختص کریں۔ اختیارات کی تقسیم کا واضح اعلان کیا جائے۔ یونیورسٹیاں اپنے اپنے علاقے میں تحقیق کریں ۔ افسروں کی تربیت کے لئے آن لائن ورکشاپ کریں۔ عوام کی آگاہی کے لئے بھی گھر گھر فلائر بانٹیں۔ بلدیاتی اداروں کے انتخابات کروائیں۔ انہیں اختیارات دیں۔ اس طرح اکثریت کے مسائل محلّے کی سطح پر ہی حل ہوسکیں گے۔ ایک سسٹم ہی ملک کو پائیدار ترقی کے راستے پر گامزن کر سکتا ہے۔

محمود شام

بشکریہ روزنامہ جنگ

Post a Comment

0 Comments