Pakistan

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

نہر پاناما۔۔۔۔ایک کرشماتی آبی گزرگاہ

ریپبلک آف پاناما وسطی امریکہ میں واقع ہے۔ دارالحکومت اس کا پاناما,سٹی ہے جسکی کل آبادی 40 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے ۔ پاناما کے مغرب میں کوسٹاریکا اور جنوب مشرق میں کولمبیا واقع ہے ۔ 1903 میں پاناما کولمبیا سے آزاد ہو کر ایک خود مختار ملک بن گیا تھا۔ یہ انتہائی سر سبز ملک ہے۔ اس میں ہر طرف سبزہ اور چھوٹے چھوٹے پہاڑ ہیں۔ جب کہ کچھ جگہوں پر اونچے اور خنک پہاڑ بھی ہیں۔ جغرافیائی طور پر اسے اس لئے بھی اہمیت حاصل ہے کہ اسکے ایک طرف بحیرہ او قیانوس اور دوسری جانب بحرالکاہل ہے ۔ یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ بحرالکاہل دنیا کا سب سے بڑا اور گہرا سمندر ہے جو مشرق سے مغرب تک بے شمار ملکوں کو چھوتا ہوا گزرتا ہے ۔ پاناما وسطی امریکہ کی دوسری بڑی معیشت ہے ۔ پاناما کی معیشت کا زیادہ دارومدار اس کی نہر " پاناما نہر " کی آمدن سے ہے کیونکہ اس نہر کے ذریعے گزرنے والے تمام بحری جہازوں سے نہر کے استعمال کا معاوضہ دو لاکھ ڈالر وصول کیا جاتا ہے۔

اسی لئے اس منفرد آبی گزر گاہ کو " طلسماتی گزر گاہ " بھی کہا جاتا ہے ۔ اکثر لوگ سوچتے ہیں کہ آخر ایسی کون سی خاص بات ہے کہ " امریکن سوسائٹی آف سول انجینئرز " نے اسے دنیا کے سات عجائبات میں سے ایک قرار دیا ہے ۔ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لئے ہمیں اسکے جغرافیائی محل وقوع اور تکنیکی پہلوئوں کا احاطہ بھی کرنا ہو گا۔ جب ہم دنیا کے نقشے پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں دنیا کے دو بڑے سمندروں بحیرہ اوقیانوس اور بحر الکاہل کے درمیان شمالی امریکہ اور جنوبی امریکہ کے دو بڑے بر اعظم نظر آتے ہیں اور ساتھ ہی ان دونوں براعظموں کے درمیان خشکی کا طویل بل کھاتا ٹکڑا نظر آئے گا جو شمال سے جنوب کی طرف جاتے ہوئے بتدریج پتلا ہوتا چلا جاتا ہے اور میکسیکو سے شروع ہو کر پاناما, پر ختم ہوتا ہوا جنوبی امریکہ کے براعظم سے مل جاتا ہے ۔ اس براعظم پر بحیرہ اوقیانوس اور بحرالکاہل کا درمیانی فاصلہ گھٹ جاتا ہے اور پاناما میں ایک مقام پر محض 50 میل رہ جاتا ہے۔

بیسویں صدی سے پہلے اگر کوئی سمندری جہاز امریکہ کی مشرقی جانب سے مغرب کے کسی ملک جانا چاہتا تو اسے خشکی کے اس چھوٹے سے ٹکڑے کی وجہ سے پورے جنوبی امریکہ کا چکر لگا کر کم و بیش دس ہزار میل کا فاصلہ لگ بھگ ایک ماہ میں طے کرنا ہوتا تھا جن ممالک کو امریکہ کے مغرب میں تجارتی سفر کرنا پڑتے تھے ان کے دل میں یہ خیال آیا کہ اگر اس پچاس میل کے خشکی کے ٹکڑے کو کسی طرح جہازرانی کے قابل پانی میں تبدیل کر دیا جائے تو بحیرہ اوقیانوس سے براہ راست بحیرہ الکاہل میں اترنے کا شارٹ کٹ نکل آئے گا۔ اس زمانے میں پاناما کا علاقہ کولمبیا کے زیر اثر تھا۔ نہر پاناما کی تعمیر کا قصہ لگ بھگ ایک سو چالیس برس قبل شروع ہوا , چونکہ اتنا بڑا منصوبہ پاناما جیسی چھوٹی اور محدود وسائل والی ریاست کے لئے ممکن نہ تھا ۔ اس زمانے میں ہسپانیہ کی سلطنت عروج پر تھی اور پوری دنیا میں اسکی ترقی اور نئی آباد کاری کا ڈنکا بجتا تھا اس لئے اس نے یہاں آ کر نہر بنانے کا ارادہ کیا لیکن تھوڑے ہی عرصے بعد اس کی عدم دلچسپی کے باعث یہ منصوبہ آگے نہ بڑھ سکا اور ہسپانوی حکومت کو اس دعوے سے دست بردار ہونا پڑا ۔ 

اس کے بعد کولمبیا کی حکومت نے فرانس کی ایک کمپنی کو یہ علاقہ جہاں دونوں سمندروں کے درمیان نہر بنائی جا سکتی تھی 99 سالہ لیز پر ایک معاہدے کے تحت دے دیا۔ اس کمپنی کے انجینئر فرڈنینڈ نے 1881 میں اس علاقے میں کام کی شروعات کی ۔ جس میں 17000 مزدور کھدائی پر معمور کئے گئے ۔ یہ مزدور زیادہ تر ویسٹ انڈین تھے ۔ لیکن بد قسمتی سے یہ منصوبہ بائیس ہزار مزدوروں کی ہلاکتوں کے باوجود بھی ادھورے کا ادھورا ہی رہا۔ کیونکہ اس علاقے میں ملیریا, اور یرقان کی جان لیوا وبا اچانک پھوٹ پڑی علاوہ ازیں مٹی کے تودے گرنے سے بھی ہلاکتیں روز کا معمول بن چکی تھیں دوسری طرف یہاں چند گھنٹوں کی بارش مہینوں کے کام کو ملیا میٹ کر دیا کرتی تھی جسکے باعث فرانسیسی کمپنی کو بھی یہ منصوبہ 1889 میں ادھورا چھوڑ کر واپس جانا پڑ گیا ۔ اب متحدہ امریکہ ہی واحد ملک تھا جو اس کام کو پایہء تکمیل تک پہنچا سکتا تھا ۔ اور ویسے بھی اس نہر کی تعمیر سے سب سے زیادہ مفادات متحدہ امریکہ کے ہی وابستہ تھے۔ اس لئے پاناما نے 1903 میں متحدہ امریکہ کے ساتھ 99 سالہ لیز پر اس نہر کی تعمیر کا معائدہ کر لیا ۔

امریکہ نے فرانس کی ناکامیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے جو منصوبہ بنایا اس کے تحت دونوں سمندروں کو مدغم کرنے کی بجائے یہاں میٹھے پانی کی ایک مصنوعی نہر کی تعمیر کی منصوبہ بندی کی۔ خوش قسمتی سے اس علاقے میں ایک قدرتی دریا پہلے ہی سے موجود تھا ۔ اس لئے امریکیوں نے اس دریا پر بند باندھ کر ایک مصنوعی نہر تعمیر کی ۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ جس علاقے میں یہ نہر تعمیر کی گئی وہ دونوں سمندروں یعنی بحیرہ اوقیانوس اور بحرالکاہل کی سطح سے 26 میٹر بلند تھی۔ لہذا اگر جہاز بحیرہ او قیانوس میں ہے تو اسے اس نہر میں لانے کے لئے 26 میٹر اونچا کیسے کیا جائے؟ اور جب وہ نہر عبور کر کے بحر الکاہل کے پاس پہنچے تو اسے سطح سمندر تک کیسے لایا جائے؟ اور یہی مسئلہ ان جہازوں کے لئے بھی تھا جو بحرالکاہل سے بحیرہ اوقیانوس میں جانا چاہتے تھے۔ اس مسئلے کا جو حل نکالا گیا وہی پاناما نہر کا عجوبہ سمجھا جاتا ہے ۔ حل یہ نکالا گیا کہ اگر بحیرہ او قیانوس میں اس جگہ جہاز پہنچ جائے جہاں سے نہر شروع ہوتی ہے تو وہاں اسے ایک ایسے لمبے چوڑے حوض نما جھیل میں داخل کر دیا جائے جس کے دونوں طرف بڑے بڑے مضبوط دروازے لگے ہوئے ہوں۔

جب سمندر سے جہاز اس حوض میں آ جائے تو دونوں دروازے بند کر دئے جائیں اور اس حوض میں اتنا پانی بھر دیا جائے کہ وہ نہر کی سطح کے برابر پہنچ جائے۔اس وقت نہر کی طرف دروازہ کھول دیا جائے اور جہاز نہر عبور کرنے کے قابل ہو جائے۔ پھر جب وہ بحرالکاہل کے قریب پہنچے تو وہاں پھر ایک اور حوض میں داخل ہو جو داخلے کے وقت نہر کی سطح کے برابر اور سمندر کی سطح سے بلند ہو۔ یہاں دونوں طرف دروازے بند کر کے اس حوض سے پانی نکالا جائے ۔ جس کے ذریعے جہاز نیچے جانا شروع ہو جائے یہاں تک کہ جب وہ سمندر کی سطح کے برابر آ جائے تو سمندر کی طرف کا دروازہ کھول دیا جائے اور جہاز بحر لکاہل میں داخل ہو جائے گا۔ جہاز کے اوپر اور نیچے ہونے کا عمل تین مرحلوں میں مکمل ہو گا اور ہر مرحلے پر وہ ایک بڑے حوض میں داخل ہو کر پانی بھرنے یا پانی نکالنے کا انتظار کرے گا ۔ جس کے ذریعے اس کی سطح اونچی یا نیچی ہوتی رہے گی۔ ان تینوں مراحل سے ہر اس جہاز کو گزرنا پڑے گا جو بحیرہ او قیانوس سے بحرالکاہل یا بحر الکاہل سے بحیرہ اوقیانوس جانا چاہیں گے۔

متحدہ امریکہ کی دس سال کی شب وروز محنت نے رنگ دکھایا اور انجینئرنگ کی تاریخ کے اس ناقابل یقین منصوبے نے نہ صرف اس وقت کی دنیا کو حیرت زدہ کر ڈالا بلکہ اب بھی دنیا تعمیر کے اس لازوال شاہکار پر کو خراج تحسین پیش کرتی ہے ۔ اس منصوبے سے 50 میل کا فاصلہ اس مصنوعی نہر کے ذریعے اوسطا" بیس سے بائیس گھنٹوں میں طے ہو جاتا ہے جبکہ اس سے پہلے ایک سمندر سے دوسرے سمندر تک پہنچنے کے لئے اسے پورے جنونی امریکہ کا چکر لگا کر کم بیش ایک ماہ کا عرصہ درکار ہوتا تھا۔ 1977 تک امریکہ نے اس نہر کے اردگرد قائم " پاناما کینال زون " پر اپنا کنٹرول قائم رکھا لیکن اس کے بعد پاناما اور امریکہ نے ایک نیا معاہدہ " پاناما کینال معاہدہ " کیا جس کے تحت اس کا کنٹرول مشترکہ طور پر دونوں ممالک کے دائرہ اختیار میں چلا گیا اور پھر 1999 میں نہر پاناما کے علاقے کا مکمل کنٹرول ریاست پاناما کے حوالے کر دیا گیا۔ اس نہر کی تعمیر پر فرانس 1881 سے 1889 تک مصروف کار رہا جبکہ امریکہ نے 1904 میں تعمیراتی کام کا آغاز کر کے 15 اگست 1914 تک اسے مکمل کر لیا ۔ اس نہر کی تعمیر پر کل 33 کروڑ 66 لاکھ 50 ہزار ڈالر خرچ ہوئے جبکہ تقریبا 24 کروڑ مربع فٹ زمین کی کھدائی کی گئی۔ اس نہر کی کھدائی کے دوران فرانس کے کام کرنے والے 22000 لوگوں کو اور امریکہ کے 5600 کے لگ بھگ لوگوں کو جان سے ہاتھ دھونا پڑے ۔ آج نہر پاناما دنیا کی اہم ترین بحری گزر گاہوں میں شمار ہوتی ہے جہاں سے ہر سال لگ بھگ 14000 سے زائد بحری جہاز گزرتے ہیں۔

خاور نیازی

بشکریہ دنیا نیوز

Post a Comment

0 Comments