Pakistan

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

پندرہ ممالک نے دنیا کا سب سے بڑا تجارتی اتحاد قائم کر لیا

دنیا کے 15 ممالک نے مل کر دنیا کا سب سے بڑا تجارتی اتحاد قائم کیا ہے جو عالمی معیشت کا تقریباً ایک تہائی حصہ بنتا ہے۔ ریجنل کامپری ہینسو اکنامک پارٹنرشپ (آر سی ای پی) میں جنوبی کوریا، چین، جاپان، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ سمیت 10 جنوب مشرقی ایشیائی ممالک شامل ہیں۔ گذشتہ آٹھ برس سے آر سی ای پی سے متعلق مذاکرات جاری تھے۔ بالآخر اس معاہدے پر ویتنام کی میزبانی میں منعقد ہونے والی ایسوسی ایشن آف ساؤتھ ایسٹ ایشین نیشنز کے ورچوئل اجلاس کے موقع پر دستخط کیے گئے۔ مگر اس خطے میں پہلے ہی کئی ممالک کے درمیان ٹیکس فری تجارت کے معاہدے موجود ہیں۔ تو آر سی ای پی سے حقیقی بنیاد پر کیا فرق پڑے گا؟

آر سی ای پی کرے گا کیا؟
توقع کی جا رہی ہے کہ آر سی ای پی آئندہ 20 سالوں میں کئی اشیا کی برآمد پر ٹیکس ختم کر دے گا۔ اس معاہدے میں جملہ حقوق کے حوالے سے، ٹیلی کمیونیکیشنز، مالیاتی سروسز، ای کامرس، اور دیگر متعدد پیشے ورانہ سروسز کے حوالے سے خصوصی شقیں موجود ہیں۔ مگر اس معاہدے میں سب سے اہم اصول شاید نئے ’رولز آف آریجن‘ یعنی اس بات کا تعین کرنا کہ کوئی چیز کہاں کی بنی ہوئی ہے، ہوں گے۔ اس معاہدے کے رکن ممالک میں سے کئی کے درمیان پہلے ہی فری ٹریڈ معاہدے ہیں تاہم ان میں کچھ باتیں محدود کی گئی تھیں۔ ایشین ٹریڈ سنٹر کی ڈبراہ ایلمز کہتی ہیں کہ ’موجودہ فری ٹریڈ معاہدے آر سی ای پی کے مقابلے میں کافی پیچیدہ ہیں۔‘ جن کاروباروں کی سپلائی چین یعنی اشیا کی رسد کئی ممالک پر محیط ہے، ان پر فری ٹریڈ معاہدے کے باوجود ٹیکس لگ سکتا ہے کیونکہ ان کی اشیا کے جز کسی دوسرے ملک سے لائے گئے ہوتے ہیں۔

مثال کے طور پر اگر انڈونیشیا میں بنی کوئی چیز میں آسٹریلیا سے لائے گئے اجزا ہیں، تو آسیان کی فری ٹریڈ زون میں اسے برآمدگی کے ٹیکس کا سامنا ہو سکتا ہے۔ آر سی ای پی کے تحت کسی بھی چیز کو بنانے کے لیے کسی اور رکن ملک سے لائے گئے اجزا کو برابر تصور کیا جائے گا۔ اس کی وجہ سے ہو سکتا ہے کہ کمپنیاں اب اپنی اشیا بنانے کے لیے خطے کے ممالک سے ہی اجزا خریدنے کی کوشش کریں جس سے مقامی معیشت کو فائدہ ہو سکتا ہے۔  اس معاہدے کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ اس میں کچھ ایسے ممالک میں ایک دوسرے سے جڑ گئے ہیں جو کہ عام طور پر تجارت کے معاملے میں سفارتی تعلقات میں خرابی کی وجہ سے مل کر کام نہیں کرتے، جیسے کہ جاپان اور چین۔ 

یہی صورتحال آسٹریلیا اور چین کی بھی ہے۔ اس معاہدے کو چین کے خطے میں بڑھتے اثر و رسوخ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اس معاہدے میں امریکہ کو شامل نہیں کیا گیا جس نے سنہ 2017 میں ایک مخالف ایشیا پیسیفک تجارتی معاہدے سے دستبرداری کا اعلان کیا تھا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سنہ 2016 میں منصب سنبھالنے کے کچھ ہی عرصے بعد ٹرانس پیسیفک پارٹنرشپ سے دستبرداری کا فیصلہ کیا تھا۔ اس معاہدے میں 12 ممالک شامل تھے اور اسے سابق امریکی صدر براک اوباما کی حمایت حاصل تھی اور وہ اس کے ذریعے چین کی خطے میں بڑھتی طاقت کا مقابلہ کرنا چاہتے تھے۔ اس معاہدے میں شریک رہنماؤں کو امید ہے کہ اس کے باعث کورونا وائرس کی عالمی وبا کی وجہ سے پیدا ہونے والے بحران سے نکلنے میں مدد ملے گی۔ 

چین کے وزیر اعظم لی کیچیانگ کا کہنا ہے کہ ’موجودہ عالمی صورتحال کے دوران آر سی ای پی کے معاہدے پر آٹھ برس کے مذاکرات کے بعد دستخط ہونا امید کی ایک کرن ہیں۔‘ چین کے وزیراعظم نے اس معاہدے کو کثیرالجہت سوچ اور آزاد معیشت کی فتح قرار دیا ہے۔ انڈیا بھی ان مذاکرات کا حصہ تھا لیکن اس کی جانب سے گذشتہ برس علیحدگی اختیار کی گئی کیونکہ ان کے مطابق اس معاہدے میں درج کم محصولات مقامی تاجروں کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے۔ دستخط کرنے والے ممالک کا کہنا ہے کہ انڈیا کے مستقبل میں اس اتحاد کا حصہ بننے کے لیے دروازہ کھلا ہے۔ آزاد معیشت کا یہ نیا اتحاد امریکہ، میکسیکو اور کینیڈا کے اتحاد کے علاوہ یورپی یونین سے بھی بڑا تجارتی اتحاد ہے۔ آر سی ای پی کے اراکین ممالک عالمی آبادی کا تقریباً ایک تہائی ہیں جبکہ ان کی کل پیداوار مجموعی عالمی پیداوار کا 29 فیصد ہے۔

ٹم مکڈونلڈ

بی بی سی نیوز، سنگاپور
 

Post a Comment

0 Comments