دنیا میں اسلحے کی تجارت سب سے زیادہ ہوتی ہے، ہر قسم کا اسلحہ اوپن اور بلیک مارکیٹ میں مل جاتا ہے۔ اسلحے کی تجارت پر نظر رکھنے والا عالمی ادا رہ اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ جو عرف عام میں ”SIPRI” کہلاتا ہے‘ اس نے ایک رپورٹ جاری کی ہے‘ اس میں کہا گیا ہے کہ دنیا میں سالانہ 398 ارب ڈالر کی اسلحے کی تجارت ہوتی ہے۔ سرمایہ دار ممالک میں اسلحہ ساز ادارے نجی ملکیت میں ہوتے ہیں‘ حکومتیں بھی ان سے مال خریدتی ہیں۔ 2017ء میں سو بڑے اسلحہ ساز اداروں نے 398.2 ارب ڈالر کا کاروبار کیا‘ چین کے اسلحے کی تجارت کے اعداد و شمار شامل نہیں ہیں ۔ روسی اسلحہ ساز تجارت میں دوسرے نمبر پر رہے‘ پہلی مرتبہ ایک روسی کمپنی امریکی اور یورپی کمپنیوں کے ساتھ ٹاپ 10 ملٹی نیشنل کارپوریشنوں میں آئی۔
دنیا کے دس بڑے اسلحہ ساز کارپوریشنوں کا ایک جائزہ بتاتا ہے۔ ایک امریکی اسلحہ سازکمپنی کی سالانہ فروخت 44.9 ارب ڈالر ہے۔ یہ دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ دوسرے نمبر پر بھی ایک امریکی ادارہ ہے‘ اس کے اسلحہ کی فروخت 26.9 ارب ڈالر ہے۔ تیسرے نمبر پرناروے کی کمپنی ہے‘ اس کے اسلحے کی فروخت 23.9 ارب ڈالر ہے۔ چوتھے نمبر پر برطانوی کمپنی ہے، اس کمپنی کی کل فروخت 22.9 ارب ڈالر سالانہ ہے۔ پانچویں نمبر پر پھر ایک امریکی کمپنی ہے اور اس کے تیار کردہ اسلحے اور پرزہ جات کی سالانہ فروخت 22.4 ارب ڈالر سالانہ ہے۔ چھٹے نمبر پر بھی امریکی کمپنی ہے‘ اس کی سالانہ فروخت 19.5 ارب ڈالر ہے۔ ساتویں نمبر پر ایک یورپی کمپنی ہے‘ اس کے اسلحے کی سالانہ برآمدات 11.3 ارب ڈالر ہے۔ آٹھویں نمبر پر فرانسیسی کمپنی ہے‘ اس کی سالانہ فروخت 9 ارب ڈالر ہے۔ نویں نمبر پر اٹلی کی کمپنی ہے‘ اس کی سالانہ فروخت 8.9 ارب ڈالر ہے۔ دسویں نمبر پر روسی کمپنی ہے‘ اس کی سالانہ فروخت 8.6 ارب ڈالر ہے۔
ان ممالک کا ایک جائزہ جو اسلحہ کی فروخت میں نمایاں رہے۔ ان اعداد و شمار کا تعلق پچھلے پانچ سال (2015-2019) سے ہے‘ اس عرصے کے دوران امریکا‘ روس‘ فرانس‘ جرمنی اور چین نے سب سے زیادہ اسلحہ فروخت اور برآمد کیا‘ اسلحے کی مقدار پچھلے پانچ سال (2010-14) کے مقابلے میں 5.5% فیصد زیادہ ہے‘ اس سروے کے مطابق سعودی عرب‘ انڈیا‘ مصر‘ آسٹریلیا اور چین نے سب سے زیادہ اسلحہ درآمد کیا‘ ایشیاء اوشیانہ کے ملکوں نے اس عرصے میں 41%‘ مشرق وسطی کے ممالک نے 35% یورپی ممالک نے 11%‘ افریقی ممالک نے 7.2 % اور امریکی ممالک نے 5.7% کا اسلحہ اس عرصے میں خریدا اور امپورٹ کیا۔ اس عرصے میں امریکی اسلحہ کی فروخت 23 فیصد بڑھی ہے‘ دنیا میں اسلحے کی کل برآمدات کا 36% یہاں سے جاتا ہے۔ کل 96 ممالک یہ اسلحہ خریدتے ہیں‘ مشرق وسطی کے ممالک نے اس عرصے میں امریکی اسلحے کا 51% خریدا جو پچھلے عرصے کے مقابلے میں 79 فیصد زیادہ ہے۔
یورپ اور شمالی امریکا سے باہر تین ممالک بھی اسلحے کے دس بڑے برآمد کنندگان میں شامل تھے۔ ان میں چین‘ اسرائیل اور جنوبی کوریا شامل ہیں۔ چین کا دنیا بھر میں اسلحہ کی برآمدات میں پانچواں نمبر ہے‘ یہ کل برآمدات کا 5.5% برآمد کرتا ہے‘ 2015-19ء میں ایشیاء اوشیانہ کو چین نے 74%‘ افریقہ کو 16% اور مڈل ایسٹ کو 6.7% اسلحہ برآمد کیا‘ آج چین 53 ممالک کو اسلحہ فروخت کرتا ہے۔ اسرائیل 2015-19ء کے پانچ سال میں دنیا بھر میں اسلحہ کے برآمد کنندگان میں آٹھویں نمبر پر رہا ’اسرائیل کے اسلحے کی مارکیٹ میں 77% اضافہ ہوا‘ جو دنیا میں سب سے زیادہ تھا۔ جنوبی کوریا کا اسلحے کی برآمدات میں 10واں نمبر تھا اور اس کا عالمی مارکیٹ میں کل حصہ 2.1% رہا‘ اس کی اسلحے کی برآمدات میں اضافہ 143% تھا‘جو اس تجارت کے ٹاپ ٹین ممالک میں سب سے زیادہ ہے‘ یہ 17 ملکوں کو اپنا اسلحہ جس میں ہلکے جیٹ جہاز شامل ہیں فروخت کرتا ہے۔
یورپی ممالک سے دنیا کے کل اسلحے کی تجارت کا 26% برآمد ہوتا ہے‘ یہ پچھلے پانچ سال کے مقابلے میں 9% زیادہ ہے‘ فرانس‘جرمنی‘ برطانیہ‘ سپین اور اٹلی سب سے زیاد برآمد کنندگان میں شامل ہیں۔ فرانس کے اسلحے کی برآمدات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے‘ یہ 1990ء کے بعد سب سے زیادہ یعنی 72% اضافہ ہے‘ فرانس کو سب سے زیادہ فائدہ مصر‘ قطر اور انڈیا کو اسلحہ فروخت کرنے سے ہوا‘ خاص کر رفال جہازوں اور دیگر اسلحے کی فروخت سے۔ جرمنی کے اسلحے کی برآمدات میں 17% اضافہ ہوا اور اس کا عالمی اسلحے کی تجارت میں حصہ 5.8% ہے‘ اس کی برآمدات کا 24% مشرق وسطی کے ممالک کو جاتا ہے۔ برطانیہ دنیا کا چھٹا اسلحے کا برآمد کنندہ تھا‘ اب اس کی برآمدات 15% کم ہو گئی ہیں لیکن اس کے باوجود دنیا کے اسلحے کے کاروبار میں اس کا حصہ 3.7% ہے‘ برطانیہ کے اسلحے کی برآمدات میں کمی کی بڑی وجہ سعودی عرب کو اسلحے کی فروخت میں کمی ہے کیونکہ سعودی عرب کی مارکیٹ امریکا نے حاصل کر لی ہے اور انڈیا کی مارکیٹ فرانس نے لے لی ہے۔ روس کے اسلحے کی برآمدات دنیا بھر کے کاروبار کا 21% ہے ‘حالانکہ اس کے اسلحے کی برآمدات میں 18% کمی ہوئی ہے ہندوستان روسی اسلحے کی بڑی مارکیٹ تھی لیکن اب وہ اس کے ہاتھ سے نکل گئی ہے‘ حالانکہ مصر اور عراق کو اسلحے کی فروخت میں اضافہ ہوا ہے۔
0 Comments