Pakistan

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

افغانستان میں امن کو درپیش چیلنجز

افغانستان میں امن اور سلامتی کی عجیب صورت حال ابھر رہی ہے۔ ایک طرف انٹرا افغان ڈائیلاگ کا آغاز ہوا ہے‘ کیونکہ افغان حکومت کی جیلوں میں بند طالبان قیدیوں کی رہائی کے بعد قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان کی نئی مذاکراتی ٹیم پہنچ گئی تھی‘ اور دوسری طرف بم دھماکوں اور خود کش حملوں میں بھی تیزی آ گئی ہے۔ امریکہ اور طالبان کے مابین افغانستان میں جنگ بند کرنے اور قیام امن کیلئے سمجھوتے پر امسال 29 فروری کو دستخط ہوئے تھے۔ افغانستان میں اقوام متحدہ کے ادارے کے جمع کردہ اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ چھ ماہ کے دوران افغان سکیورٹی فورسز اور طالبان کے مابین جنگ میں جاں بحق ہونے والے فوجی جوانوں اور شہریوں کی تعداد گزشتہ پورے ایک سال کی تعداد سے زیادہ ہے۔ افغان حکومت لڑائی میں تیزی کی ذمہ داری طالبان پر ڈالتی ہے۔ 

اس کا استدلال یہ ہے کہ انٹرا افغان ڈائیلاگ کا مرحلہ قریب آتے ہی طالبان نے حکومت کی چوکیوں اور عسکری ٹھکانوں پر حملے تیز کر دیئے ہیں تاکہ مذاکرات میں ایک بالادست فریق کی حیثیت سے حصہ لے سکیں۔ دوسری طرف طالبان افغان حکومت کو اس صورتحال کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ ان کا موقف یہ ہے کہ افغان سکیورٹی فورسز طالبان کے زیر کنٹرول علاقوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں‘ جسے وہ ہرگز برداشت نہیں کریں گے۔ اس پیچیدہ صورتحال کا مزید تشویشناک پہلو یہ ہے کہ متعدد بم دھماکوں اور خود کُش حملوں کی ذمہ داری کوئی بھی فریق قبول کرنے کو تیار نہیں۔ اس پر بعض مبصرین اور ماہرین کی رائے یہ ہے کہ صورت حال کا فائدہ اٹھا کر داعش نے اپنی سرگرمیوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ 

ان کا مقصد افغان حکومت اور طالبان کے مابین شروع ہونے والے مذاکرات کو ناکام بنانا اور افغانستان میں انارکی پھیلانا ہے‘ تاکہ اس کی آڑ میں اپنے اثرورسوخ کو پھیلا سکیں۔ یہ صورتحال افغان حکومت‘ طالبان اور امریکہ‘ سب کیلئے ایک بڑا چیلنج ہے کیونکہ شام اور عراق میں شکست سے دوچار ہونے کے بعد یہ انتہا پسند تنظیم افغانستان کی صورتحال سے فائدہ اٹھا کر یہاں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ 29 فروری کے معاہدے کے مطابق امن مذاکرات کا اگلا مرحلہ یعنی انٹرا افغان ڈائیلاگ کا آغاز معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد دس دن کے اندر ہونا قرار پایا تھا‘ لیکن مذاکرات اب شروع ہو رہے ہیں۔ اسی باعث افغانستان میں مستقل قیامِ امن کی منزل کا حصول مشکل نظر آتا ہے۔ 

اسی وجہ سے ماہرین کا کہنا ہے کہ افغانستان میں مذاکرات بہت طویل ہوں گے‘ اس دوران جنگ بھی جاری رہے گی‘ اور دونوں طرف جانی نقصان ہوتا رہے گا۔ اس کی وجہ بالکل واضح ہے کہ افغان حکومت اور امریکہ کے پیہم مطالبے اور افغان عوام کی بھاری اکثریت کی خواہش کے باوجود طالبان جنگ بندی پر راضی نہیں ہوئے۔ انہوں نے اعلان کر رکھا ہے کہ وہ جنگ بندی پر اس وقت راضی ہوں گے جب فریقین کے مابین سیاسی تصفیہ ہو جائے گا‘ لیکن سیاسی تصفیہ اس لئے مشکل نظر آ رہا ہے کہ طالبان موجودہ افغان حکومت کو کٹھ پتلی انتظامیہ سمجھتے ہیں۔ طالبان 1996 میں ملا عمر کی قیادت میں قائم ہونے والی ' اماراتِ اسلامی افغانستان‘ کی بحالی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ 

اس کے حق میں وہ جو دلیل پیش کرتے ہیں‘ یہ ہے کہ 2001 میں امریکہ نے بزور طاقت غیر قانونی طور پر افغانستان میں طالبان کی حکومت کی جگہ موجودہ افغان حکومت قائم کی تھی‘ اس لئے میدانِ جنگ میں فتح حاصل کرنے کے بعد انہیں اپنی سابقہ حکومت بحال کرنے کا پورا پورا حق ہے‘ لیکن یہ دعویٰ کرتے ہوئے وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے پانچ سالہ دور میں ان کی حکومت کو صرف تین ملکوں یعنی پاکستان‘ سعودی عرب اور قطر نے تسلیم کیا تھا۔ اس کے مقابلے میں افغانستان کی موجودہ حکومت کو اقوام متحدہ اور پوری بین الاقوامی برادری نے تسلیم کر رکھا ہے۔ اس کے علاوہ گزشتہ تقریباً 20 برسوں سے یہاں جمہوری نظام کے تحت منتخب ادارے قائم ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ افغانستان کا موجودہ معاشرہ طالبان کے زمانے کے معاشرے سے بالکل مختلف ہے۔ انکے زمانے میں لڑکیوں کی تعلیم کیلئے سکول نہیں تھے‘ نہ ہی ان کو ملازمت کرنے کی اجازت تھی۔ 

اب افغانستان میں لڑکیاں نہ صرف سکولوں بلکہ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بھی تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ 1996 میں طالبان نے کابل پر قبضہ کرنے کے بعد جو سیاسی اور انتظامی ڈھانچہ قائم کیا تھا‘ اس کے خدوخال واضح نہیں تھے۔ جہاں تک انتظامی اختیارات کا تعلق تھا تو وہ تمامتر ملا عمر کے ہاتھ میں تھے۔ اس نظام کے تحت خواتین کو سخت پردے میں رہنا پڑتا تھا‘ یہاں تک کہ مردوں کیلئے کرکٹ اور فٹ بال کھیلنے پر بھی پابندی تھی‘ لیکن آج کا افغانستان 1996 اور 2001 کے افغانستان سے بہت مختلف ہے۔ یہ درست ہے کہ طالبان کے مقابلے میں افغان حکومت کی رٹ بہت کمزور ہے۔ افغان سکیورٹی فورسز تعداد میں زیادہ ہونے کے باوجود طالبان کے ڈسپلن اور عسکری قیادت کا مقابلہ نہیں کر سکتیں‘ مگر 29 فروری کے معاہدے اور امریکی افواج کی واپسی کا عمل شروع ہونے پر اگر کوئی یہ سوچ رہا تھا کہ افغان انتظامیہ اور اس کے ماتحت افغان سکیورٹی فورسز ریت کی دیوار ثابت ہوں گی تو میرے خیال میں اس کی یہ خوش فہمی غلط ثابت ہو گی۔ 

نظم و ضبط کے مسائل اور بھگوڑوں کی تعداد میں اضافہ ہونے کے باوجود افغان سکیورٹی فورسز طالبان کے تابڑ توڑ حملوں کا موثر جواب دے رہی ہیں۔ ممکن ہے طالبان کے اندازوں کے برعکس امریکی افواج کے انخلا کے بعد سیاسی اور عسکری صورتحال طالبان کے بجائے افغان حکومت کے حق میں چلی جائے‘ کیونکہ عوام کی طرف سے طالبان کو اب تک حاصل ہونے والی حمایت بہت حد تک ملک میں غیر ملکی افواج کی وجہ سے تھی۔ امریکہ کے نکل جانے سے افغانستان میں سیاسی اور عسکری محرکات میں بنیادی تبدیلی کا امکان ہے۔ ان حالات میں رائے عامہ کا جھکائو ان قوتوں کی طرف ہو جائے گا جو افغانستان میں فوری جنگ بندی اور مصالحت کی حامی ہیں۔ امریکی صدر نے وعدہ کر رکھا ہے کہ انٹرا افغان ڈائیلاگ کا آغاز ہوتے ہی وہ افغانستان سے مزید امریکی افواج نکال لیں گے۔ 

امریکہ کی طرف سے اس اقدام کا اغلب امکان اس لئے ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نومبر میں امریکی انتخابات سے قبل افغانستان سے امریکی افواج اگر مکمل طور پر نہ سہی‘ تو کافی حد تک واپس بلا لینے کے خواہش مند ہیں۔ افغانستان میں امریکی افواج کے انخلا کی رفتار تیز ہوتے ہی اگر طالبان نے جنگ بندی کا مطالبہ ماننے کے بجائے افغان سکیورٹی فورسز پر حملوں میں اضافہ کیا تو ان کو بین الاقوامی برادری کی جانب سے شدید دبائو کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ امریکیوں کے انخلا کے بعد افغانستان میں جنگ کی نوعیت تبدیل ہو جائے گی۔ اس طرح طالبان کو وہ اخلاقی برتری حاصل نہیں رہے گی‘ جو انہیں گزشتہ 19 برس ایک غیر ملکی حملہ آور طاقت یعنی امریکہ کے خلاف برسر پیکار ہونے کی وجہ سے حاصل تھی۔ 

صدر اشرف غنی کی حکومت کو ایک کمزور اور غیر موثر حکومت کہا جا سکتا ہے‘ لیکن افغان عوام میں جنگ کے خلاف اور امن کے حق میں بہت مضبوط خواہش پیدا ہو چکی ہے۔ افغان معاشرے کا ہر حصہ‘ خواہ وہ تاجر ہو یا محنت کش‘ طالب علم ہو یا ملازم‘ عورت ہو یا مرد‘ اپنے ملک میں مزید جنگ کے خلاف ہے۔ ملک میں کوئی خاندان ایسا نہیں‘ جس کا کوئی نہ کوئی رکن افغانستان کی جنگ میں مارا نہ گیا ہو۔ ان افراد کی بیوائیں اور بچے اور دیگر بے سہارا لوگ موجودہ حکومت کیلئے ہی مسئلہ نہیں‘ آئندہ ہر آنے والی حکومت کیلئے بھی ایک بہت بڑا بوجھ ہوں گے۔ اس لئے آج افغانستان میں اگر ایک طرف جنگ کے شعلے پہلے سے زیادہ بلند ہیں تو عوام کے دلوں میں بھی امن کی خواہش پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہے اور یہی ملک میں جنگ کے خاتمہ اور قیام امن کی راہ ہموار کرے گی۔

ڈاکٹر رشید احمد خاں

بشکریہ دنیا نیوز

Post a Comment

0 Comments