Pakistan

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

عرب رياستوں نے ساتھ چھوڑ ديا، اب فلسطينی کس کا در کھٹکھٹائيں


دو عرب رياستوں نے اسرائيل کے ساتھ باقاعدہ سفارتی تعلقات قائم کر ليے ہيں۔ مشرق وسطی ميں نئے اتحاد سامنے آ رہے ہيں اور ماہرين کا کہنا ہے کہ اس بدلتی ہوئی صورت حال ميں فلسطين تنہا ہوتا جا رہا ہے۔ امريکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعہ 11 ستمبر کی شب بحرين اور اسرائيل کے درميان سفارتی تعلقات قائم کرنے کے فیصلے کا اعلان کيا۔ امريکی صدر نے اسرائيلی وزير اعظم بينجمن نيتن ياہو اور بحرين کے شاہ حماد بن عيسی الخليفہ کے ساتھ جاری کردہ مشترکہ بيان ميں کہا کہ يہ تاريخی معاہدہ مشرق وسطی ميں قيام امن کی راہ ہموار کرے گا۔ متحدہ عرب امارات کی طرح اب بحرین بھی اسرائيل کے ساتھ سفارتی، سلامتی، تجارتی اور ديگر تمام شعبوں ميں تعلقات قائم کر سکے گا۔ متحدہ عرب امارات کے بعد بحرين اسرائيل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے والی دوسری عرب رياست بن گئی ہے جب کہ مصر اور اردن کے پہلے ہی سے تعلقات تھے۔ دوسری جانب اعلیٰ فلسطينی قيادت نے بحرين کے فيصلے کو رياست فلسطين کی پيٹھ ميں خنجر گھونپنے سے تعبير کيا ہے۔ ايران نے بحرين پر تنقيد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب بحرين بھی اسرائيلی جرائم ميں حصہ دار ہے۔ ترکی نے بھی اپنے رد عمل ميں بحرين پر تنقيد کی ہے۔


فلسطين سفارتی سطح پر تنہا
اس ہفتے بائيس رکنی عرب ليگ کا اجلاس ہوا، جس ميں فلسطين کی کوشش تھی کہ متحدہ عرب امارات اور اسرائيل کے مابين پچھلے ماہ طے ہونے والی ڈيل کی مخالفت کی جائے مگر ايسا نہ ہو سکا۔ فلسطين لبريشن آرگنائزيشن کے ايک سابق اعلیٰ اہلکار ساری نصيبہ نے کہا ہے کہ حاليہ پيش رفت سے فلسطينی قيادت کافی نالاں ہے، ''ليکن وہ عرب ممالک سے پہلے کے مقابلے ميں زيادہ نالاں نہيں۔ فلسطينی ہميشہ ہی سے يہ کہتا آيا ہے کہ عرب ممالک نے ان کا ساتھ اس طرح نہيں ديا جس طرح انہيں دينا چاہيے تھا۔‘‘ سياسی تجزيہ کار غسان خاطب کہتے ہيں، ''اس وقت عرب دنيا ہر قسم کے مسائل سے دوچار ہے۔ خطے کے کئی ملکوں کو مسلح تنازعات، سياسی انقلاب، خانہ جنگی اور کشيدگی کا سامنا ہے۔ فلسطينی شہری عرب ممالک ميں تقسيم کی قيمت چکا رہے ہيں۔‘‘

ايک مغربی سفارتی ذريعے نے اپنی شناخت مخفی رکھنے کی شرط پر کہا، ''فلسطينيوں کے پاس اور کوئی راستہ ہے بھی نہيں۔ وہ اس ليے بھی پھنس گئے ہيں کيونکہ ان کے حقوق کی بات ترکی اور ايران کر رہے ہيں۔‘‘ ايران کے غزہ پٹی ميں متحرک ايسے گروپوں کے ساتھ تعلقات ہيں، جنہيں مغربی ممالک اور اسرائيل جنگجو گروپ قرار ديتے ہيں مثلاً اسلامک جہاد اور حماس۔ ترکی فلسطين کی حمايت کرتا ہے اور ترک افواج ليبيا ميں مصر اور متحدہ عرب امارات کی حمايت يافتہ قوتوں کے خلاف برسرپيکار ہيں۔ سياسی تجزيہ کار غسان خاطب کے مطابق فلسطينیوں کو ايران، ترکی اور قطر سے دور رہنا چاہيے کيونکہ ان کے عرب خليجی رياستوں کے ساتھ بڑے مسائل چل رہے ہيں: ''علاقائی سپر پاورز کے جھگڑوں ميں پڑنا فلسطين کے مفاد ميں نہيں۔ اگر ايران کا ساتھ ديا، تو سعودی عرب کی حمايت ختم۔ اور اگر ترکی کے ساتھ چلے تو اور کوئی ساتھ چھوڑ دے گا۔‘‘

بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو

Post a Comment

0 Comments