Pakistan

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

الجزائر : پندرہ لاکھ شہدا کی روحیں خوش

فرانسیسی سامراج بالآخر ہار گیا۔ افریقی امریکی جارج فلائیڈ کا خون رنگ لے آیا۔ سامراجی نشانیوں کے خلاف دنیا بھر میں ہونے والی جدوجہد نے انتہائی طاقتور فرانسیسی استعمار کو بھی مجبور کر دیا۔ جمعہ 3 جولائی الجزائر کے باشعور اور جدوجہد کے عادی عوام کے لیے ایک تاریخی دن تھا۔ جب 171 سال پہلے آزادی کے لیے اپنی جان قربان کرنے والوں کی باقیات پیرس سے الجزائر واپس آرہی تھیں۔ ایک فوجی طیارہ شہیدوں کی یہ قیمتی باقیات لے کر الجزائر کی فضائی حدود میں داخل ہو رہا تھا جہاں کڑی دھوپ کے باوجود الجزائر کے صدر وزراء اور عوام اپنے جان نثاروں کے خیر مقدم کے لیے سر بلند مگر آنکھیں نم لیے کھڑے ہیں۔ صدر عبدالمجید نیون ایک ایک تابوت کے پاس جا کر جھک کر سلام کر رہے ہیں، فاتحہ پڑھ رہے ہیں۔

یہ 24 مجاہدین آزادی کے وہ سر ہیں جو جھکے نہیں۔ کٹ گئے تھے۔ فرانس جو ویسے اپنی فنون لطیفہ سے محبت، مصوری سے لگن، شاعری سے الفت، فلسفے سے یگانگت کے لیے مشہور ہے۔ انقلاب فرانس کے ہم سب گُن گاتے ہیں لیکن یہ دو تین صدیوں سے افریقہ میں جس درندگی۔ استبداد اور شقاوت کا مظاہرہ کر رہا تھا۔ یہ اہلِ افریقہ سے پوچھیں ان کی شاعری میں ناولوں میں ملاحظہ کریں۔
باقیات کی واپسی کیلئے پہلے الجزائر کے دانشور، مورخ اور محققین مطالبہ کرتے آرہے تھے۔ حکومت نے اس کے لیے باقاعدہ آواز 2018 میں بلند کی۔ ان 24 پیاروں میں شیخ یوزیان، محمد لمجہ بن عبدالمالک اور مختار بھی شامل ہیں۔ جن کی بہادری کی کہانیاں مائوں کی زبانی الجزائر کی نسلیں انیسویں صدی سے سنتی آرہی ہیں۔ یہ 24 حریت پسند بہت ہی ظالمانہ طریقوں سے شہید کیے گئے تھے۔ ان کی مزاحمت کو روکنے کے لیے ہزاروں فرانسیسی فوجی الجزائر پر مسلط کیے گئے۔ انہیں گرفتار کیا گیا۔ پھر گولیوں کی بوچھاڑ کی گئی۔

اس کے بعد سر دھڑوں سے الگ کیے گئے۔ اور یہ کھوپڑیاں پیرس کے Museum of Man میں فرانسیسی فوج نے Trophis کے طور پر برسوں سے سجائی ہوئی تھیں۔ الجزائر کی جنگِ آزادی کے بعد پیدا ہونے والے ایمانویل میکرون فرانس کے صدر منتخب ہوئے تو پہلی بار فرانسیسی ضمیر نے اپنے سامراجی نظام کا اعتراف کیا۔ صدر نے کہا ’’ نو آبادیاتی نظام سنگین غلطی تھی۔
انسانیت کے خلاف جرم‘‘ لیکن انہوں نے الجزائر کے عوام سے معافی نہیں مانگی جمعہ 3 جولائی کو جنگ آزادی کے یہ 24 ہیرو اسی سر زمین پر لوٹ آئے جس کے لیے انہوں نے اپنی جانیں نثار کی تھیں۔ ہفتہ 4 جولائی کو تاریخ کے یہ اوراق قصرِ ثقافت Palace of Culture میں زیارت کے لیے رکھے جاتے ہیں۔ جہاں پورے الجزائر سے انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے خلقت امڈ آتی ہے۔ پھر اتوار 5 جولائی الجزائر کے یوم آزادی پر گرانمایہ امانتیں شہدا چوک لے جا کر الجزائر کے شہیدوں کے عظیم قبرستان میں سپرد خاک کی جاتی ہیں۔

جنگ آزادی تو 1830 میں قبضے سے ہی شروع ہو گئی تھی لیکن 1952 سے 1962 تک جاری رہنے والی جدو جہد میں 15 لاکھ الجزائریوں نے جان کے نذرانے دیے تھے۔ آپ کو بھی یاد ہو گا بچپن سے ہی ہم آزادی کی تین تحریکوں کی کہانیاں سن کر جوان ہوئے۔ اور جوانی میں بھی کشمیر فلسطین اور الجزائر کے عوام کو بھارتی۔ اسرائیلی اور فرانسیسی استعمار سے پنجہ آزما دیکھا۔ فلسطین اگر چہ ایک مملکت بن گیا ہے مگر مکمل مختار نہیں ہے۔ الجزائر کے عوام نے لازوال قربانیاں دے کر آزادی حاصل کی۔ مگر اپنے مقامی استعمار کے خلاف وہ آج بھی بر سرپیکار ہیں۔ کشمیری تو اس وقت تاریخ کے سفاک ترین دَور سے گزر رہے ہیں۔ بلند قامت۔ خوبصورت بن باللہ یاد آتے ہیں۔ جن کی سربراہی میں جنگ آزادی کے آخری مراحل طے کیے گئے۔ فرانس کا ایک فلسفی۔ ایک ادیب ژاں پالی مارتر بلاخوف الجزائر کی آزادی کے لیے آواز بلند کرتا رہا۔ 

جنرل ڈیگال سے اس کی گرفتاری کی اجازت مانگی گئی مگر اس نے تاریخی جملہ ادا کیا۔’’ سارتر تو فرانس ہے۔ میں اسے کیسے گرفتار کر سکتا ہوں۔‘‘ افسوس دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے دعویدار بھارت میں کشمیر کی آزادی کے لیے آواز اٹھانے والا سارتر کسی ماں نے نہیں جنا ہے۔ ایک ستم ظریقی یہ ہے کہ یورپی سامراجوں سے نجات حاصل کرنے والی قوموں میں سے کسی کو بھی ’آزادیٔ کامل‘ نصیب نہیں ہوئی ہے۔ الجزائر میں بھی مقامی استعمار سے لڑائی جاری ہے۔ یہاں ’پیپلز نیشنل آرمی‘ نے چونکہ برسوں الجزائر کو آزاد کروانے کیلئے جنگ لڑی۔ اس لیے وہ حکمرانی پر بھی اپنا حق سمجھتی ہے۔ وہ زمینی سرحدوں کے ساتھ ساتھ ملکی نظریاتی سرحدوں کا تحفظ بھی اپنی ذمہ داری خیال کرتی ہے۔ جب یہ تاریخی لمحات رُونما ہو رہے تھے ان دنوں میں بھی الجزائر کی سڑکوں پر مکمل سویلین حکمرانی کے لیے لاکھوں کی تعداد میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔ جہاں بنیادی مطالبہ یہ ہے کہ ’’ ہم ایک سویلین حکومت چاہتے ہیں۔ نہ کہ فوجی حکمرانی۔‘‘ 

آرمی چیف اس کے جواب میں کہتے ہیں ۔’’ فوج نے اب تک جو کچھ کیا ہے وہ مادر وطن کے عظیم تر مفادات میں کیا ہے۔‘‘ قریباً دو دہائیاں حکمرانی کرنے والے صدر بوتفلیقہ نے اپنے دَور میں فوج کو غیر جانبدار کرنے کی کسی حد تک کامیاب کوششیں کی تھیں۔ لیکن پھر ان کو ہٹانے میں اپوزیشن نے فوج کا ساتھ دیا۔ اب سیاسی طور پر صورتِ حال یہ ہے کہ سیاسی پارٹیاں بہت کمزور ہیں۔ بکھری ہوئی۔ اور مختلف الزامات کی زد میں۔ لیکن الجزائر کے عوام نے ہمت نہیں ہاری ہے۔ صدر بوتفلیقہ جب 1971 میں وزیر خارجہ تھے۔ کراچی ایئرپورٹ پر مجھے ان سے ملاقات یاد ہے۔ الجزائر دوسرے مسلمان ملکوں کی طرح انتہا پسندوں کی زد میں بھی رہا۔ الجزائری اپنے ہی بہن بھائیوں کو مارتے رہے۔ جیسے پاکستان میں بھی دو تین دہائیاں ایسی گزری ہیں۔ جمعہ ہفتہ اتوار۔ الجزائر کی جدو جہد آزادی کے 15 لاکھ شہدا کی روحیں کتنی خوش ہوئی ہوں گی۔ لیکن ابھی بہت سی باقیات اور اس طویل جنگ حریت کی ہزاروں نشانیاں اب بھی فرانس کے پاس ہیں۔ محققین اور مورخین کا مطالبہ ہے کہ وہ سب واپس کی جائیں۔ آزادیٔ کامل کا ایک مرحلہ ان 24 باقیات کی واپسی سے طے ہوا۔ 1962 میں جیسے فرانس سے معاہدہ کر کے الجزائر آزاد ہوا تھا اللہ کرے اب مقامی سامراجوں سے بھی معاہدہ اور مفاہمت ہو۔ پھر ہمارے الجزائری بھائی مکمل آزادی سے ہمکنار ہو سکیں۔

محمود شام

بشکریہ روزنامہ جنگ

Post a Comment

0 Comments