ماضی میں امریکی کے فوجی تنازعات میں اس کا قریبی اتحادی رہنے والا ملک پاکستان ایران امریکہ تنازعے میں غیر جانبدار رہنے پر کیوں زور دے رہا ہے؟ جارج میسن یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر احسن بٹ کے خیال میں پاکستان کے اس تنازعے میں غیر جانبدار رہنے کے پیچھے سب سے بڑی وجہ اس کے داخلی حقائق ہیں۔ ’پاکستان میں 20 سے 25 فیصد مسلم آبادی کا تعلق شیعہ برادری سے ہے جس کی ایک بڑی تعداد ایران سے مذہبی وجوہات کی بنا پر قربت رکھتی ہے اور پاکستانی فوج ہرگز یہ نہیں چاہے گی اس میں فرقے کی بنیاد پر تفریق پیدا ہو۔‘ احسن بٹ کے مطابق پاکستان کا غیرجانبدار پوزیشن لینے کے پیچھے ایک اور بڑی وجہ امریکہ افغان جنگ میں پاکستان کا بڑا جانی اور مالی نقصان ہے اور پاکستان اتنی جلدی اپنے پڑوسی ملک کی جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا جبکہ افغان جنگ ابھی تک مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی۔
کیا پاکستان امریکی جنگ میں غیرجانبدار رہ سکتا ہے ؟ اگر پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ریکاڈ دیکھا جائے تو پاکستان نے اکثر ابتدا میں امریکی تنازعات میں غیرجانبدار رہنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن امریکی دباؤ، پاکستان کی خراب اقتصادی صورت حال اور انڈیا کے ساتھ تعلقات کے باعث بالآخر امریکہ کے ساتھ اتحادی بننے میں ہی آفیت جانی جس کی حالیہ مثال 2001 افغان جنگ بھی ہے۔ لیکن بروکنگز انسٹیٹیوٹ میں ریسرچ فیلو مدیحہ افضل کا ماننا ہے کہ امریکہ افغان جنگ کے وقت کا موازانہ ایران امریکہ کشیدگی سے نہیں کیا جا سکتا۔ ’امریکہ افغان جنگ میں پاکستان کا غیرجانبدار رہنا اس لیے مشکل تھا کیونکہ وہ اس تنازعے میں نہ چاہتے ہوئے بھی ایک فریق تھا۔
صرف اس لیے نہیں کیونکہ افغانستان پاکستان پڑوسی ملک تھا بلکہ اس لیے کہ وہ جنگ پاکستان میں پھیل گئی تھی۔‘ مدیحہ افضل کے مطابق اگر امریکہ ایران گشیدگی کل کو جنگ کی شکل اختیار کرتی ہے تو یہ اُس طرح پاکستان نہیں پہنچے گی جس طرح افغان جنگ نے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لیا تھا۔ احسن بٹ اور مدیحہ افضل دونوں کے مطابق موجودہ حالات میں پاکستان غیرجانبدار رہ سکتا ہے اور کشیدگی کو کم کروانے میں کردار بھی ادا کر سکتا ہے لیکن جوں جوں امریکہ ایران کشیدگی میں اضافہ ہو گا اور یہ جنگ کی صورت اختیار کرے گا پاکستان کے لیے غیرجانبدار رہنا مشکل ہو جائے گا۔
امریکہ ایران جنگ میں پاکستان کس کو چنے گا ؟ پاکستان کے موجودہ وزیراعظم عمران خان امریکی جنگوں میں پاکستان کی مداخلت کے شدید مخالف رہے ہیں۔ انھوں نے ہمیشہ سابق صدر جنرل پرویز مشروف کے افغانستان میں امریکی جنگ میں پاکستان کو شامل کرنے کی پالیسی کو شدید تقید کا نشانہ بنایا ہے۔ لیکن آج جب وہ خود وزیراعظم ہیں تو کیا وہ ملک کو امریکہ اور ایران تنازعے سے دور رکھ پائیں گے؟ پاکستان کی تاریخ اور پر گہری نظر رکھنے والے ڈاکٹر حامد حسین کے مطابق پاکستان اس تنازعے میں کتنی مداخلت کرے گا اس کا فیصلہ وزیراعظم سے زیادہ پاکستان فوج کرے گی۔ ڈاکٹر حامد حسین کے خیال میں دباؤ پڑنے کی صورت میں پاکستان اپنی غیر جانبداری کی پالیسی بھی تبدیل کر سکتا ہے اور اس کی حالیہ مثال کوالالمپور اجلاس سے پاکستان کی سعودی عرب کی جانب سے مبینہ دباؤ کے بعد دسبرداری ہے۔
ڈاکٹر حامد حسین کے مطابق پاکستان حکومت نے جب یمن جنگ میں غیرجابندار رہنے کا فیصلہ کیا تھا تب حالات مختلف تھے کیونکہ اس وقت پاکستان کی اقتصادی صورت حال اتنی کمزور نہیں تھی جتنی آج ہے۔ ’اس لیے اگر پاکستان پر امریکہ کی جانب سے اسی قسم کا دباؤ ڈالا گیا جو 2001 میں افغان جنگ کے موقع پر ڈالا گیا تھا تو پاکستان برداشت نہیں کر پائے گا۔‘ ’لیکن ایران کے ساتھ تنازعے میں امریکہ پاکستان پر اتنا دباؤ نہیں ڈالے گا کیونکہ امریکہ کے پاس خطے میں سعودی عرب، اسرائیل اور خلیجی ممالک جیسے اور بہت اتحادی ہیں۔‘ مدیحہ افضل اور ڈاکٹر حامد حسین دونوں کے خیال میں اگر امریکہ یا ایران میں سے کسی ایک کو چننے کی نوبت آئی تو پاکستان یقیناً امریکہ کا ساتھ دے گا کیونکہ بے شک پاکستان اور ایران کے درمیان تعلقات پر امن رہے ہیں لیکن ایران سعودی عرب تنازعے میں پاکستان نے ہمیشہ سعودی عرب کو ترجیح دی ہے اور ایران امریکہ تنازعے میں بھی پاکستان نے امریکہ کے ساتھ کھڑا ہونا بہتر سمجھا ہے جس کی مثال ایران پاکستان گیس پائپ لائن سے امریکی دباؤ کے باعث پاکستان کی دسبرداری ہے۔
سارہ عتیق بشکریہ بی بی سی اردر ڈاٹ کام، اسلام آباد
0 Comments