کینگروز اور کوالا کا دیس گذشتہ پانچ ماہ سے آگ میں جل رہا ہے ۔ پہلے کیلیفورنیا پھر ایمیزون اور اب آسٹریلیا کے جنگلات آگ کے شعلوں کی لپیٹ میں ہیں۔ اکیسیویں صدی میں موسمیاتی تغیرات اپنے عروج پر ہیں۔ اب بھی انسان بیدار نہ ہوا تو ہماری آنے والی نسلوں کا مقدر ایک تباہ حال کرہ ارض ہو گی جہاں زندگی کامیاب اور موت ارزاں ہو گی۔ آسٹریلیا کا زیادہ تر رقبہ جنگلات پر مشتمل ہے، یہاں ہر برس موسم گرما میں جنگلات میں آگ لگنا معمول کی بات سمجھی جاتی ہے، مگر امسال یہ آگ معمول کی نہ تھی ۔ ستمبر 2019 میں لگنے والی آگ پر تاحال قابو نہیں پایا جا سکا، پانچ ماہ میں ملک کےجنگلا ت کا بڑا حصہ جل کر خاکستر ہو گیا ہے۔ میڈیا پر آنے والی جانوروں کی تصاویر اور ویڈیوز دل دہلا دینے والی ہیں۔
آسڑیلیا کی پہچان انسان دوست جانور کوالا (جسے ٹری بیئر بھی کہتے ہیں) اور کینگروزکی آبادی کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ کوالا کی آدھی نسل معدومیت کے خطرے سے دوچار ہے۔ محتاط اندازے کے مطابق اب تک ایک کروڑ 20 لاکھ ایکڑ رقبہ آگ سے جل کر راکھ ہو چکا ہے۔ یہ رواں صدی کا سب سے بڑا سانحہ ہے ، اس سے قبل 2018 میں کیلیفورنیا کے جنگلات میں لگی آگ سے تقریباً 19 لاکھ ایکٹر جنگلات جل گئے تھے۔ آسڑیلیا میں آگ سے ہونے والا نقصان رواں برس اگست میں ایمیزون جنگلات میں لگنے والی آگ سے چھ گنا زیادہ بتایا جارہا ہے۔ 8 جنوری کو سڈنی یونیورسٹی کے چونکا دینے والے اعداد و شمار کے مطابق نیو ساؤتھ ویلز ریاست میں 80 کروڑ جانوروں کی ہلاکت ہو چکی ہے جبکہ ملک بھر میں ایک تخمینے کے مطابق ایک ارب جانوروں، پروندوں اور حشرات کی ہلاکت کا اندیشہ ہے۔
آسڑیلیا کو مجموعی طور پر اب تک 4 ارب 40 کروڑ امریکی ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔ 25 افراد اس آگ کی نذر ہو چکے ہیں ، 1400 سے زائد گھر مکمل تباہ ہو گئے۔ آگ بجھانے والے ہزاروں کارکن دن رات آگ پر قابو پانے کے لیے اپنی زندگی کو داؤ پر لگائے مصروف عمل ہیں ۔ زمین پر زیادہ تر حصوں میں شدید سردی ہے جبکہ آسٹریلیا میں یہ سخت گرمی کا موسم ہے ۔ کئی ریاستوں میں درجہ حرارت 47 سینٹی گریڈ تک ریکارڈ کیا گیا ہے۔ خطے میں تیز ہوائیں چلنے کی وجہ سے آگ مسلسل پھیلتی جارہی ہے، جس پر فی الفور قابو پانا انسان کے بس سے باہر نظر آتا ہے ۔ آسٹریلیا کے کئی شہروں میں اس وقت سموک کی وجہ سے سانس لینا دشوار ہو رہا ہے۔ آگ لگنے کی بنیادی وجوہات کچھ بھی ہو سکتی ہیں، مگر اس کے پھیلاؤ اور بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔
ماحولیاتی تبدیلیوں کو ترقی یافتہ ممالک نے اس سنجیدگی سے نہیں لیا جو ان سے توقعات وابستہ تھیں۔ اس معاملے میں آسٹریلین وزیراعظم اسکارٹ موریسن بات کرنے سے کترا رہے ہیں ، کیونکہ آسٹریلیا ان بڑے ممالک میں شامل ہے جو گیسی اخراجات میں کمی پر تیار نہیں ہیں کیونکہ اس سے ان نام نہاد ترقی یافتہ ممالک کی معیشت پر حرف آتا ہے۔ اقوام متحدہ کی جاری کردہ رپورٹ “Managing Climate Change in Australis” میں ماہرین نے آسٹریلین حکومت کو پہلے ہی سے متنبہ کیا تھا کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں کمی لانے میں حکومت ناکام رہی ہے، جس کی وجہ سے امسال سخت گرمی کی لہر متوقع ہے، مگر حکومت نے اس رپورٹ پر بھی کان نہیں دھرے ۔ موسمیاتی تبدیلیوں پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات خاصے مضحکہ خیز رہے ہیں، وہ سرے سے ہی موسمیاتی تبدیلیوں کے انکاری ہیں۔
بظاہر تو یہ ممالک عالمی ماحولیاتی معاہدے (پیرس ایگریمنٹ ) میں شامل ہیں مگر اس معاہدے پر عمل پیرا نہیں ہیں ۔ 2019 میں بڑے پیمانے پر جنگلات میں آگ لگنے سے واضح ہے کہ بطور انسان ہم ایک خطرناک عہد میں جی رہے ہیں۔ موسمیاتی تغیرات کی وجہ سے نہ صرف مختلف نوع کے جانوروں اور پرندوں کی زندگیوں کو خطرہ ہے بلکہ نسل ِ انسان بھی خطرے سے دوچار ہے ۔ عہدِ جدید میں انسان اربوں ڈالر محض کائنات کا جائزہ لینے کے لیے صرف کر رہا ہے۔ زمین کے سوا، کہیں زندگی کے آثار مل سکیں ، کوئی ایک جرثومہ حیات مل جائے ۔ اس مقصد کے لیے انسان نے ارب ہا ارب ڈالر خرچ کر دیے ہیں مگر کیا ہم زمین پر زندگی کی حفاظت کے لیے اس قدر سنجیدہ ہیں کہ جو حیات ہمارے سامنے جل رہی ہیں اس کی حفاظت کے لیے تمام وسائل بروئے کار لاتے ہوئے اقدامات کر سکیں؟
0 Comments