مسئلہ کشمیر، پاکستان کیا کر سکتا ہے‘ کیا نہیں؟ پاکستان، بھارت کے خلاف مختصر مدتی دفاعی اور وسط مدتی جارحانہ اقدامات کر سکتا ہے۔ تفصیلات کے مطابق، بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی یک طرفہ طور پر مقبوضہ جموں وکشمیر کی حیثیت ختم کرتے ہوئے دنیا کے تمام سمجھوتوں کو دفنا دیا ہے جو کہ اقوام متحدہ کی قرارداد، شملہ اور لاہور معاہدوں کے طور پر کیے گئے تھے۔ جب کہ اس کا ردعمل پاکستان نے انتہائی سمجھداری اور نپے تلے انداز میں دیتے ہوئے سفارتی ذرائع کا استعمال کیا اور بھارتی جارحیت کو آشکار کیا۔ کشمیریوں کی حمایت میں 15 اگست کو بھارت کے 73 ویں یوم آزادی کو پاکستان نے بطور’’یوم سیاہ‘‘منایا۔ لیکن کیا پاکستان دنیا اور خطے کی بدلتی سیاسی صورت حال ، اپنی خودمختاری اور اقتصادی بقاء کو لاحق خطرات کا اندازہ لگا رہا ہے، جب کہ مقبوضہ کشمیر میں غیر انسانی سلوک کے امکانات بڑھ چکے ہیں۔
دنیا پہلی مرتبہ فتنہ پرور افراد کو حکمران کی صورت میں دیکھ رہی ہے جیسا کہ ڈونلڈ ٹرمپ، نیتن یاہو، نریندر مودی اور شاید صدر پوٹن بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔ ووٹوں کے حصول کے لیے اپنی عوام کے یہ مقبول رہنما اقلیتوں کو نشانہ بنانے سے گریز نہیں کر رہے۔ اسی تناظر میں بھارت کا آئندہ ممکنہ وزیراعظم امیت شاہ ہو سکتا ہے، جو کہ کشمیر سے کشمیریوں کا صفایا چاہتا ہے اور اس نے 25 لاکھ ہندئوں کو مقبوضہ کشمیر میں بسانے کی تجویز دی تھی۔ جس کا پرتشدد ردعمل دینے کو کشمیری تیار ہیں ، جب کہ یہ پاکستانی سیاست میں بھی شدت پسندی کا باعث بن سکتا ہے۔ جب کہ چین چاہتا ہے کہ پاکستان پرامن طریقے سے بھارت کے ساتھ مسائل حل کرے۔ ایسی صورت حال میں پاکستان کیا کر سکتا ہے؟
پاکستان ، بھارت کے خلاف دفاعی اور جارحانہ دونوں طرح کے طریقہ کار استعمال کر سکتا ہے۔ دفاعی اقدامات کے طور پر سفارتی، سیاسی اور قانونی ذرائع کا استعمال یعنی یو۔ان، یو این ایس سی، آئی او سی، آسیان، جی سی سی، ایس سی او، آئی سی جے، عالمی عدالت انصاف وغیرہ۔ دوسرا، پاکستان شملہ معاہدے اور لاہور معاہدے پر نظر ثانی کر سکتا ہے۔ تیسرا، اسلام آباد لائن آف کنٹرول کا ازسرنو تعین کرنے کی خواہش کا اعلان کر سکتا ہے۔ اسی طرح اقتصادی پابندیاں جیسا کہ تجارت ختم کرنے کافیصلہ پہلے ہی کیا جا چکا ہے، اسی طرح بھارت پر مستقل فضائی پابندی کا فیصلہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ چوتھا، دہلی کا اثرورسوخ افغانستان میں محدود کرنا، ایران کو بھارت کے بجائے چین کی جانب راغب کرنا، یا چاہ بہار کا افغانستان سے راستہ محدود کرنا ۔
بھارت زیادہ تر تیل، کویت، یو اے ای اور سعودی عرب سے حاصل کرتا ہے، پاکستان وہاں اپنے خصوصی تعلقات کا استعمال کر کے بھارت کے لیے مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔ البتہ پاکستان کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ بھارت پر پراکسی کے ذریعے دبائو ڈالے ، کیوں کہ پاکستان پر ایف اے ٹی ایف اور آئی ایم ایف کا دبائو ہے اور اس کے اپنے مالی مسائل بھی ہیں۔ طالبان کی ٹرمپ انتظامیہ سے ڈیل سے بھی پاکستان فائدہ نہیں اٹھا سکتا کیوں کہ تقریباً 18 سال بعد پاکستان ، بھارت کو افغانستان میں کمزور کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔ پانچواں، جارحانہ طریقہ کار، پاکستان مستحکم مالیاتی اور زری پالیسی کے ذریعے اپنے آپ کو اس قابل کرے کہ وہ کشمیریوں کی مالی امداد کر سکے، جیسا کہ بھارت ، بلوچستان میں کر رہا ہے کیوں کہ بھارت کی اسٹیبلشمنٹ سمجھتی ہے کہ اسلام آباد دیوالیہ ریاست ہے۔
پاکستان ، کاروباری اور مالیاتی حوالے سے بھارت کے تشخص کو منفی طور پر پیش کر سکتا ہے ۔ پاکستان کشمیریوں کو اپنے حق کے حصول کے لیے متحرک کر سکتا ہے۔ اسلام آباد، بھارت کے مشرقی اور مغربی راہداری کے خواب کو چکنا چور کر سکتا ہے۔ ہم بحیثیت قوم کشمیر کو نا تو بھول سکتے ہیں اور نا ہی کشمیر کو بھارت کے ہاتھوں میں دے سکتے ہیں اور نا ہی وہاں بھارتی بالادستی کو قبول کرسکتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں صرف سمجھ بوجھ کے ساتھ وسط مدتی معتدل پالیسیاں ہی کامیابی کا باعث بن سکتی ہیں۔
0 Comments