پاکستان نے اسٹاف کی سطح پر دو ہفتے سے ہونے والے مشکل مذاکرات میں آئی ایم ایف کی تقریباً تمام ناگزیر شرائط قبول کر لی ہیں جس کے بعد فریقین کے درمیان 39 مہینوں میں 6 ارب ڈالر کے قسط وار قرضے کا معاہدہ طے پا گیا ہے۔ اس معاہدے کے بعد عالمی بنک، ایشیائی ترقیاتی بنک اور دیگر مالیاتی اداروں سے بھی دو سے تین ارب ڈالر کی اضافی رقم ملے گی۔ گویا مجموعی طور پر اس معاہدے کے نتیجے میں پاکستان کو تقریباً 9 ارب ڈالر کا قرضہ ملے گا اور وہ بھی کم شرح سود پر۔ معاہدہ جو اگلے 6 ہفتے میں آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری کے بعد نافذ العمل ہو گا، کے پاکستان کے لئے جہاں کئی مثبت پہلو ہیں وہاں کئی تحفظات بھی ہیں لیکن گرتی ہوئی ملکی معیشت کو سنبھالا دینے کے لئے یہ کڑوی گولی نگلنے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں تھا۔
مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کے بقول آئی ایم ایف کی کچھ شرائط ہمارے مفاد میں تھیں جن پر ہم خود بھی عمل کرنا چاہتے تھے۔ معاہدے سے پاکستان کے مالیاتی استحکام کے بارے میں دنیا میں اچھا پیغام جائے گا۔ اب اگلے تین سال میں ہم ڈھانچہ جاتی تبدیلیاں لائیں گے جس سے معاملات درست کرنے میں مدد ملے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ چند برسوں سے ملک کی معاشی صورت حال ابتر ہے۔ پچھلے پانچ سال سے ملکی برآمدات صفر بلکہ منفی ہو گئیں۔ گزشتہ برس درآمدات و برآمدات کا فرق 20 ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔ بیرونی قرضے 90 ارب ڈالر سے بڑھ گئے۔ آئی ایم ایف معاہدے کی شرائط پر عملدرآمد سے معاشی بہتری آئے گی۔
مشیر خزانہ کا کہنا درست، لیکن معاہدہ کا بغور مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ عوام پر متوقع سات ہزار ارب کے ٹیکسوں کا بوجھ پڑے گا اور مہنگائی آسمان سے باتیں کرنے لگے گی۔ خود معاہدے کے متعلق آئی ایم ایف کے اعلامیہ میں اس بات کو تسلیم کیا گیا ہے اور اسی بنا پر اپوزیشن کی پارٹیوں نے معاہدے کو مسترد کر کے اسے پارلیمنٹ میں بحث کے لئے پیش کرنے کا مطالبہ کیا ہے ۔ آئی ایم ایف کے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ ٹیکسوں کا بوجھ تمام شعبوں پر یکساں لاگو ہو گا۔ حکومت کو مانیٹری پالیسی مزید سخت کرنا پڑے گی، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا۔ آمدنی بڑھانے کے لئے حکومت اگلے بجٹ میں اہم مالیاتی قدم اٹھائے گی، بجٹ کا بنیادی خسارہ 1.9 فیصد سے کم کر کے 0.6 فیصد پر لانا ہو گا حکومت ٹیکس وصولیاں بڑھائے گی۔
ٹیکس مراعات ختم کرے گی اسٹیٹ بنک کو زیادہ سے زیادہ خود مختاری دی جائے گی۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کا تعین مارکیٹ کے مطابق ہو گا، پاکستان آئندہ تین سال میں پبلک فنانسنگ کی صورت حال میں بہتری اور انتظامی اصلاحات سے ٹیکس پالیسی کے ذریعے قرضوں میں کمی لائے گا۔ نجی شعبے کو مضبوط بنانا اور روزگار کے مواقع پیدا کرنا ہوں گے۔ اعلامیے میں تسلیم کیا گیا کہ اس حوالے سے حکومت پہلے ہی مشکل لیکن ناگزیر اقدامات کا آغاز کر چکی ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے قرضے اور اس کی شرائط پر عمل درآمد کے مستقبل میں اچھے نتائج برآمد ہو سکتے ہیں لیکن اس کے فوری اثرات جو ٹیکسوں کے بوجھ، مہنگائی، پیداواری لاگت میں اضافے اور بیروزگاری کی شکل میں ظاہر ہوں گے عوام کے لئے پریشان کن ہوں گے۔
تاہم بین الاقوامی اداروں کے عمل دخل سے ملک میں مالیاتی ڈسپلن مضبوط ہو گا جو مثبت عمل ہے کیونکہ جو ملک ان اداروں سے قرضے لیتا ہے اسے اپنی مرضی چلانے کی بجائے ان کی شرائط کو بھی مدنظر رکھنا پڑتا ہے۔ معیشت کی بہتری کے لئے مالیاتی ڈسپلن ضروری ہے۔ حکومت نے ناگزیر حالات میں آئی ایم ایف سے رجوع کیا ہے مگر کوشش ہونا چاہئے کہ اس کے قرضوں کا بہتر پیداواری استعمال یقینی بنایا جائے ایسی اقتصادی منصوبہ بندی کرنا چاہئے کہ آئندہ عالمی ادارے سے قرضہ نہ لینا پڑے اور زیادہ سے زیادہ انحصار اپنے مالی وسائل پر کیا جائے۔ یہ موجودہ حکومت کا امتحان ہے اس کی اصل کامیابی یہ ہو گی کہ وہ معیشت کو بیرونی قرضوں سے پاک کرے، ترقی کی شرح نمو بڑھائے اور عوام کو ضروریات زندگی کی ارزاں نرخوں پر فراہمی یقینی بنائے۔
0 Comments