عالمی طاقتوں اور ایران کے جوہری معاہدے سے صدر ٹرمپ کے دور میں امریکہ کی یکطرفہ علیحدگی کے بعد ایران کے خلاف امریکی پابندیوں اور اقدامات کے نتیجے میں تیزی سے بڑھتی ہوئی کشیدگی پر کرہ ارض کو تباہی سے بچانے کا ہر خواہشمند بجا طور پر تشویش میں مبتلا ہے۔ حالات جس برق رفتاری سے بگڑ رہے ہیں اُس کا کچھ اندازہ صدر روحانی کے ایک تازہ بیان سے لگایا جا سکتا ہے جس میں اُنہوں نے امریکہ سے فوجی تصادم کے امکان کو رد نہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اُن کا ملک ایسے سخت دباؤ کا شکار ہے جس کی کوئی نظیر ماضی میں نہیں ملتی۔
واضح رہے کہ صدر ٹرمپ کے حکم پر امریکی جنگی جہاز اور بحری بیڑہ خلیج کے علاقے میں پہنچ چکا ہے، پاسدارانِ انقلاب کو دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا گیا ہے، ایرانی معیشت ڈوب رہی ہے، بیرونی سرمایہ کاری بند ہے، رواں سال ایرانی معیشت میں چھ فیصد کمی واقع ہونے کا اندیشہ ہے جبکہ صدر ٹرمپ ایرانی تیل کے خریدار ملکوں کو استثنیٰ ختم کرنے کی دھمکی بھی دے چکے ہیں۔ ایران کے خلاف یہ انتہائی اقدامات اُسے تنگ آمد بجنگ آمد کی کیفیت میں مبتلا کرتے دکھائی دیتے ہیں، جس کا ایک واضح مظہر ایرانی حکومت کی جانب سے یورینیم افزودگی دوبارہ شروع کرنے اور آبنائے ہرمز کو بند کرنے کی دھمکی کا اعادہ ہے جبکہ اس راستے سے دنیا بھر میں استعمال ہونے والے تیل کا پانچواں حصہ لے جایا جاتا ہے۔
اس تفصیل سے یہ حقیقت پوری طرح عیاں ہے کہ کشیدگی مزید بڑھی اور نوبت جنگ تک پہنچی تو تمام عالمی طاقتیں اور دنیا کے بیشتر ممالک کسی نہ کسی درجے میں حالات کے تقاضوں کے باعث اِس کا حصہ بن کر رہیں گے، جس سے دنیا کے بڑے پیمانے پر افراتفری اور تباہی کا شکار ہونے کا سنگین خطرہ ہے۔ اِس بنا پر تمام بڑی طاقتوں اور پوری عالمی برادری کو مزید تاخیر کے بغیر ایران امریکہ اختلافات میدان جنگ کے بجائے مذاکرات کی میز پر طے کئے جانے کی راہ ہموار کرنا چاہئے اور ایک ایسی جنگ سے دنیا کے بچاؤ کو یقینی بنانا چاہئے جس کا پھیلاؤ اور تباہ کاریاں ناقابلِ تصور ہو سکتی ہیں۔
0 Comments