عراق پر عربوں کے قبضے سے پہلے بصرہ کے قریب واقع ابلہ نامی بندرگاہ خلیج فارس کی سب سے بڑی اور مشہور بندرگاہ تھی ۔ ابلہ سے ہندوستان کی تجارتی آمدورفت اس کثرت سے تھی کہ اہل عرب ابلہ کو ہندوستان ہی کا ایک ٹکڑا سمجھتے تھے۔ چین اورہندوستان سے آنے والے جہاز یہیں ٹھہرتے، اور یہیں سے روانہ ہوتے تھے۔ عراق کی فتح کے بعد حضرت عمرؓ نے 14ء میں اس پر قبضہ کرنے اور اسے مسلمانوں کا تجارتی شہر بنانے کی ہدایت دی ۔ چنانچہ اس وقت سے لے کر 256ھ تک یہ بندرگاہ قائم رہی۔ مگر زنگیوں کی لڑائی میں ،256ھ میں یہ بندرگاہ تباہ ہو گئی۔
عراق کی دوسری مشہور بندرگاہ بصرہ کے نام سے 14ء ہی میں عربوں نے بنالی تھی مگر وہ ابلہ کی تجارتی حیثیت کو کم نہ کر سکی۔ اس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ بصرہ تجارتی مرکز ہونے کے ساتھ ساتھ جنگی اور سیاسی مرکز بھی بن گیا تھا۔ ہندوستان کے علاوہ چین اور حبشہ سے بھی تاجرآنے لگے ۔ اس نے سیاسی انقلابات کے باوجود بڑی رونق حاصل کر لی۔ خصوصاً پہلی صدی ہجری کے آخر میں سندھ پر عربوں کا قبضہ ہو جانے کے سبب یہ ہندوستان کی آمد و فت کا مرکز بن گئی۔ کشتیوں اور جہازوں پرعائد داخلہ محصول بڑھنے سے یہ خلافت کی آمدنی کا بڑا ذریعہ بھی بن گئی تھی۔
0 Comments