Pakistan

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

کیا مودی حکومت ختم ہو رہی ہے؟

بھارت میں عام انتخابات کا مرحلہ وار آغاز ہو چکا ہے، اور حال ہی میں بھار ت کی پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہوئے ہیں جس میں زبردست شکست کے بعد یہ سوال شدت سے پوچھا جا رہا ہے کہ آیا حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی(BJP) کا زوال شروع ہو چکا ہے اور وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت ختم ہو رہی ہے؟ اسی کے ساتھ حکمران جماعت بی جے پی میں ایسی چہ مگوئیاں بھی شروع ہو گئی ہیں کہ آیا اس شکست کی اصولی ذمہ داری وزیر اعظم نریندر مودی اور پارٹی کے قومی صدر امیت شاہ کو لینا چاہیے کیوں کہ 2014 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے اب تک ہوئے تمام ریاستی انتخابات میں پارٹی کی کامیابی کا سہرا بھی انہی دونوں رہنماوں کے سر باندھا جاتا رہا ہے۔ 11 دسمبر کو پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے نتائج آنے کے بعد ہندی خطے کی تین انتہائی اہم ریاستوں مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں کانگریس اپنی حکومت بنانے جا رہی ہے۔

راہول گاندھی جس سے مسلم اقلیت کو اس بار خاصی اُمیدیں ہیں، نے کہا ہے کہ وہ اقلیتوں کا خاص خیال رکھیں گے اور اب ضرورت اس بات کی ہے کہ عدلیہ، فوج اور میڈیا جیسے ملک کے اہم اداروں کی معتبریت بچانے کے لئے 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کی اقتدار سے بے دخلی یقینی بنائی جائے۔ اس کے لئے زبردست محنت کی جائے گی۔ بی جے پی کو اس کا مقام دکھا دیا جائے گا۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان ریاستوں میں بی جے پی وزراء اعلیٰ نے جو ترقیاتی کام شروع کئے تھے کانگریس انہیں پایہ تکمیل کو پہنچائے گی۔ اسمبلی انتخابات میں کانگریس 2 ریاستوں میں ہاری ہے لیکن 3 ریاستوں میں اسے کامیابی ملی ہے۔

بی جے پی نے نوجوانوں کو روزگار دینے، بدعنوانی مٹانے اور کسانوں کے قرض معافی کا وعدہ کیا تھا لیکن اس نے وعدہ پورا نہیں کیا جس سے لوگ ان سے ناخوش تھے۔ ان نتائج کے برعکس 2014 کے عام انتخابات میں بی جے پی کو حاصل ہونے والی مجموعی طورپر 282 سیٹوں میں سے 62 اسے انہی تین ریاستوں سے ملی تھیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے راجستھان کی تمام 25 سیٹیں، چھتیس گڑھ کی گیارہ میں سے دس اور مدھیہ پردیش کی 29 میں سے 27 سیٹیں جیتی تھیں۔ لیکن اس مرتبہ ان تینوں ریاستوں میں بی جے پی کو جس طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے، اس سے آئندہ سال ہونے والے عام انتخابات میں اس کی دوبارہ کامیابی کے امکانات پر بڑے سوالیہ نشان لگ گئے ہیں۔

بھارت میں چند ماہ بعد عام انتخابات ہونے والے ہیں اور ان اسمبلی انتخابات کو وزیر اعظم نریندر مودی کے لیے ”لٹمس ٹیسٹ“ کے طور پر دیکھا جا رہا تھا، جس میں وہ کامیاب نہیں ہو سکے اور اس پیش رفت کو ’مودی برانڈ‘ کے لیے زبردست دھچکا قرار دیا جا رہا ہے۔ بی جے پی کے سامنے چیلنج یہ بھی ہے کہ وہ ’مودی برانڈ‘ کی چمک دمک کو کس طرح برقرار رکھے۔ میرے خیال میں یہ مودی کی مسلم دشمنی کا شاخسانہ ہے کہ وہ اب وہ ناقابل تسخیر نہیں رہے۔ عوام کو اب یہ حقیقت سمجھ میں آ چکی ہے کہ مودی بھگوان نہیں ہیں اور انہیں بھی شکست دی جا سکتی ہے۔ عوام اب کسی خوف کے بغیر آگے بڑھ رہے ہیں۔ اور ماضی میں جس طرح وزیر اعظم نریندر مودی اور پارٹی صدر امیت شاہ تمام کامیابیوں کا سہرا اپنے سر لیتے رہے ہیں، اسی طرح اس شکست کی ذمے داری بھی انہیں قبول کرنا چاہیے۔ یہ قبول کرنا چاہیے کہ اُن کی پاکستان مخالف اور مسلم مخالف پالیسیاں غلط تھیں، آج کے دور میں جب دنیا سمٹ رہی ہے تو اُن کی تنگ ذہنی کسی طور پر بھی کام نہ آسکی۔

اور دنیا کو یاد ہے کہ مودی حکومت کس طرح مسلمانوں پر مظالم ڈھاتی رہی ہے۔حالیہ دنوں میں مودی حکومت کی مسلم دشمنی کا۔ لب لباب یہ ہے کہ مودی حکومت کی مسلمانوں کے تعلق سے پالیسی کا نچوڑ یہ ہے کہ مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا جائے۔ تب ہی تو اخلاق احمد کو گھر میں گھس کر مارا جاتا ہے تو کبھی پہلو خان کو راستے میں پیٹ پیٹ کر موت کے گھاٹ اُتارا جاتا ہے تو کبھی لاوڈ اسپیکر کے ذریعہ اذان پر اعتراض ہوتا ہے۔ اور اب بقرعید میں قربانی روکنے کیلئے زیادہ تر ایسے جانوروں کی خرید و فروخت پر پابندی لگا دی گئی ہے جو قربانی کیلئے استعمال کئے جاتے ہیں۔ ذرا تصور کیجئے کہ جب لوگ قربانی کیلئے بھینس نہیں خرید سکیں گے تو پھر بکرے کس قیمت میں ملیں گے۔؟ ظاہر ہے کہ اب بقرعید کے موقع پر بکروں کے دام آسمان سے باتیں کریں گے۔ ان حالات میں بیچارے غریب مسلمان کیسے قربانی کریں گے۔ یعنی اب یہ حکم ہے کہ ہم تمہیں تمہارے مذہبی تہوار بھی آسانی سے منانے نہیں دیں گے۔

راقم مستقل یہ لکھتا رہا ہے کہ مودی حکومت کی مسلمانوں کے تعلق سے پالیسی یہ ہے کہ مسلمانوں کو نفسیاتی طور پر غلام بنا دیا جائے، جب کوئی قوم آزادی سے اپنے مذہب کے مطابق چل نہیں سکتی تو پھر اس قوم کو غلام نہیں تو اور کیا کہا جائے گا۔ بہرکیف اسمبلی انتخابات کے نتائج حکمران بی جے پی سے زیادہ مودی اور امیت شاہ کی جوڑی کے لیے تشویش کا موجب ہیں کیوں کہ ان دونوں رہنماوں نے الیکشن کے دوران جتنا زور لگایا تھا اور جس طرح تمام حربے آزمائے تھے، اس انتخابی شکست کے بعد ان کی گرفت اتنی مضبوط نہیں رہے گی اور اگر پارٹی کا ناراض دھڑا سرگرم ہو گیا، تو ان دونوں رہنماوں کی پریشانی مزید بڑھ جائے گی۔ کیوں کہ ان نتائج نے مودی کی برتری کے لیے سنگین چیلنج پیدا کر دیا ہے۔ اب ان کی زبان بدل جائے گی، لہجہ نرم ہو جائے گا اور وہ جارحانہ تقریروں کے بجائے موضوعات پر اپنی توجہ زیادہ مرکوز کریں گے۔ اور ویسے بھی نریندر مودی کو اپنی سیاست پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے اور خامیوں کو دور کرنا چاہیے کیوں کہ یہی وقت کی آواز ہے۔

محمد اکرم چودھری
 

Post a Comment

0 Comments